فلسطین کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین (ICJP) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق حالیہ امن منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے ایک باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ تو فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کرتا ہے اور نہ ہی اسرائیلی مظالم کا کوئی احتساب یقینی بناتا ہے۔
آئی سی جے پی کے مطابق ٹرمپ کا مجوزہ منصوبہ ایک سطحی، نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں فلسطینی خواہشات، حقِ خودارادیت اور زمینی حقائق کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ نہ تو موجودہ بحران کا کوئی دیرپا حل پیش کرتا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی رائے، شرکت یا مشاورت کو اس میں شامل کیا گیا ہے، جو بذاتِ خود امن کے ہر اصول کے خلاف ہے۔
تنظیم نے زور دیا کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیلی قبضے کی بنیادی وجوہات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے اور اس میں اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے نہ کوئی واضح حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی کوئی عملی نظامِ نفاذ۔ بیان میں انتباہ کیا گیا کہ اسرائیل اس منصوبے کو "امن کی راہ میں تاخیر” کے ایک نئے بہانے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، تاکہ قبضے کو برقرار رکھا جا سکے۔ آئی سی جے پی نے اس منصوبے میں سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر جیسے افراد کی شمولیت پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ ایسے شخصیات ماضی میں فلسطین کے لیے غیر جانبدار کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم نے ٹرمپ کی قیادت میں تشکیل دیے گئے بورڈ آف پیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت امن کے بجائے طاقت کے کھیل کی نمائندگی کر رہا ہے، جس میں اصل متاثرہ فریق یعنی فلسطینی عوام کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ آئی سی جے پی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کی حقیقت کا ادراک کرے اور انصاف پر مبنی حل کو ترجیح دے تاکہ فلسطین میں پائیدار اور منصفانہ امن ممکن ہو سکے
