شام کی وزارتِ خارجہ کے نائب ڈائریکٹر برائے روس و مشرقی یورپ، اشہد صلیبی نے انکشاف کیا ہے کہ صدر احمد الشرع نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین سے ملاقات کے دوران مفرور بشارالاسد کی حوالگی کا واضح مطالبہ کیا۔
یہ مطالبہ ایک ایسی ملاقات میں سامنے آیا جسے ماہرین مشرقِ وسطیٰ نئے شام کی سفارتی ازسرِنو تشکیل قرار دے رہے ہیں۔اشہد صلیبی کے مطابق، روس نے شام میں عبوری انصاف کے قیام اور سیاسی استحکام کے سلسلے میں واضح سمجھ بوجھ اور مثبت رویہ دکھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر الشرع کا ماسکو کا دورہ تمام ممالک کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کی بحالی کی علامت ہے، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ دمشق اب ایک نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
صلیبی نے بتایا کہ دمشق اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو ترتیب دے رہا ہے تاکہ وہ ملک کے قومی و تزویراتی مفادات کے عین مطابق ہو۔ان کے مطابق نئی قیادت دنیا کے ساتھ شفاف اور کھلے انداز میں تعلقات بڑھانے پر یقین رکھتی ہے اور شامی عوام کو تمام پیش رفتوں سے باخبر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اشہد صلیبی نے اس بات پر زور دیا کہ دمشق اور ماسکو کے درمیان ہونے والے تمام دوطرفہ معاہدوں کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے گا تاکہ وہ شامی عوام کے اعلیٰ ترین مفاد کو یقینی بنائیں۔فریقین کے درمیان مذاکرات میں مطلوب افراد کی حوالگی، زیرِالتوا معاملات کے حل کے لیے قانونی فریم ورک اور بین الاقوامی حمایت جیسے نکات پر بھی بات چیت ہوئی۔
شام نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں روس کے ساتھ رابطہ اور ہم آہنگی جاری رکھی جائے گی تاکہ شام کا بین الاقوامی کردار مزید مضبوط ہو اور اس کے تزویراتی اہداف کو تقویت ملے۔
ذرائع کے مطابق صدر احمد الشرع کا ماسکو کا یہ دورہ شامی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔دسمبر 2024 میں سابق صدر بشارالاسد روس فرار ہو گئے تھے جب حزبِ اختلاف کے مسلح گروہوں نے دمشق سمیت کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے بعد ملک میں عبوری حکومت کے قیام اور نئی قیادت احمد الشرع کے ابھرنے نے شام کو ایک نئے سیاسی رخ پر ڈال دیا۔
