یوراگوئے تاریخی قانون منظور کر کے لاطینی امریکا کا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے جہاں اب یوتھنیزیا یا معاون خودکشی کو قانونی اجازت حاصل ہو گئی ہے۔ ’عزت دار موت‘ کے نام سے معروف اس بل کے حق میں سینیٹ میں 31 میں سے 20 ارکان نے ووٹ دیا، جس کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہو گیا۔
قانون کے مطابق وہ بالغ افراد جو ذہنی طور پر مکمل ہوش و حواس میں ہوں اور کسی لاعلاج مرض کے آخری مرحلے میں مبتلا ہوں، ایک رجسٹرڈ ڈاکٹر کی مدد سے اپنی زندگی باعزت، پُرامن اور بے درد طریقے سے ختم کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ تحریری طور پر اور ذاتی طور پر کیا جانا ضروری ہے، جبکہ شرط ہے کہ متعلقہ فرد یوراگوئے کا شہری یا قانونی رہائشی ہو۔
یوراگوئے پہلے ہی کئی سماجی طور پر آزاد خیال اصلاحات میں پیش پیش رہا ہے، جن میں ہم جنس شادی، اسقاطِ حمل اور میروانا کی قانونی فروخت شامل ہیں۔ اس قانون پر پارلیمان میں 10 گھنٹے طویل بحث ہوئی جو عمومی طور پر باوقار رہی، تاہم بل کی منظوری کے بعد کچھ ناظرین نے احتجاجاً ’قاتل قاتل‘ کے نعرے بھی لگائے۔
حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والی سینیٹر پٹریشیا کریمر نے کہا کہ عوامی رائے واضح ہے ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ ہم اس انسانی مسئلے کا حل نکالیں۔
ریسرچ ادارے Cifra کے مطابق 62 فیصد یوراگوئے شہری اس قانون کے حامی ہیں۔
دوسری جانب کیتھولک چرچ نے سخت مخالفت کی۔ مونٹی ویڈیو کے آرچ بشپ ڈینیئل اسٹورلا نے کہا کہ یہ قانون زندگی کی قدر بڑھانے کے بجائے یہ پیغام دیتا ہے کہ کچھ زندگیاں بے وقعت ہیں، جو بنیادی طور پر غلط ہے۔
متاثرہ مریضوں میں بھی اس فیصلے پر ردِعمل مثبت رہا۔ 71 سالہ بیٹریز جیلوش، جو دو دہائیوں سے اعصابی بیماری میں مبتلا ہیں، نے کہا: “یہ قانون ہمدردی اور انسانیت پر مبنی ہے۔ مخالفین کو شاید اندازہ نہیں کہ ایسی حالت میں زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے۔”
یوراگوئے نے یہ قدم پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے اٹھایا ہے، جبکہ خطے کے دیگر ممالک کولمبیا اور ایکواڈور میں یوتھنیزیا کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے اجازت حاصل ہے مگر وہاں ابھی تک قانون سازی نہیں کی گئی۔
