امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک تقریب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے ایک تفصیلی گفتگو کی ہے، جس میں نہ صرف تجارتی معاملات پر بات ہوئی بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام سے متعلق بھی اہم تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے مودی سے خاص طور پر کہا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ ایسے تصادم کا نتیجہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بات انہوں نے واشنگٹن کے اوول آفس میں منعقد ہونے والی دیوالی کی ایک رنگا رنگ تقریب میں کہی، جس میں بڑی تعداد میں بھارتی نژاد امریکی شہری موجود تھے۔ ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "آج میری آپ کے وزیرِاعظم نریندر مودی سے بات ہوئی، ہماری گفتگو نہایت خوشگوار رہی۔ ہم نے تجارت، علاقائی حالات اور باہمی تعلقات پر بات کی۔ میں نے انہیں کہا کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنا خطے کے مفاد میں ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ دونوں ممالک اس وقت جنگ کی راہ سے ہٹ چکے ہیں، جو کہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔”
صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ مہینوں میں کئی روز تک کشیدگی رہی، جس کے دوران دونوں ممالک نے سرحدوں پر ایک دوسرے کے خلاف ڈرون حملے، میزائل فائرنگ اور توپ خانے کا استعمال کیا۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سرحدی علاقوں میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی تھی۔
تاہم 10 مئی کو ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت دونوں ممالک نے زمینی، فضائی اور بحری کارروائیاں روکنے پر اتفاق کیا۔ اس جنگ بندی کو خطے میں امن کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن میں یہ تاثر عام ہے کہ اس معاہدے کے پیچھے صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ بات چیت کی اور انہیں امن قائم رکھنے کی یقین دہانیاں حاصل کیں۔
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اس کامیابی کا کریڈٹ خود کو دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بات چیت کے نتیجے میں ایک بڑے تصادم کو روکا جا سکا۔ تاہم نئی دہلی کی جانب سے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے واضح کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام معاملات ہمیشہ دوطرفہ سطح پر حل کیے جاتے ہیں، اور کسی تیسرے فریق کو اس میں کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں۔
گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ایک عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا۔ ان کے مطابق، پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے ان سے ملاقات کے دوران جذباتی انداز میں ان کی تعریف کی اور کہا کہ ان کی مداخلت سے کئی ممکنہ جنگیں ٹل گئیں۔ ٹرمپ کے بقول، شہباز شریف نے کہا کہ "آپ نے ایسی کئی جنگیں رکوا دیں جن میں لاکھوں جانوں کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا، اور اس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔”
تقریب کے دوران ٹرمپ نے تجارتی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ ان کی مودی سے گفتگو میں ایک اور اہم موضوع بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری تھا۔ انہوں نے کہا کہ "وزیرِاعظم مودی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ بھارت روس سے بہت زیادہ تیل نہیں خریدے گا، کیونکہ یہ معاملہ ہمارے درمیان اختلافات کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔”
امریکہ نے روس سے تیل خریدنے پر بھارت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کر رکھا ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھارت کی مجموعی درآمدی محصولات 50 فیصد تک جا پہنچی ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کسی حد تک متاثر کیا ہے، تاہم مذاکرات کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور واشنگٹن کو امید ہے کہ جلد کوئی متوازن حل نکل آئے گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان ایک طرف جہاں امریکی انتخابی سیاست کے تناظر میں اہم ہے، وہیں یہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر واقعی امریکہ نے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان امن کے قیام میں کردار ادا کیا ہے تو یہ نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہوگی بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے امن پسند تشخص کو بھی مضبوط کرے گی۔
