امریکہ نے روس پر دباؤ بڑھانے کے لیے روس کی دو بڑی آئل کمپنیوں روسنیفٹ (Rosneft) اور لکوئل (Lukoil) پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکی وزیرِ خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “اب وقت آگیا ہے کہ قتل و غارت بند ہو اور فوری جنگ بندی کی جائے۔” یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان طے شدہ ملاقات کی منسوخی کے ایک روز بعد کیا گیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے ملاقات منسوخی کے حوالے سے کہا کہ “میں ایک بے معنی ملاقات نہیں چاہتا تھا،” تاہم انہوں نے عندیہ دیا کہ آئندہ دو دن میں مزید پیش رفت ہو سکتی ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ روس کی ان دو بڑی کمپنیوں کو ہدف بنانے کا مقصد ماسکو کو یوکرین جنگ کے لیے حاصل مالی وسائل سے محروم رکھنا ہے۔ یہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کی پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ ماضی میں صدر ٹرمپ روس کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے جنگ بندی کی امید ظاہر کرتے رہے تھے۔
امریکی وزیرِ خزانہ کے بیان کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں دو ڈالر فی بیرل سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ان پابندیوں سے توانائی کے عالمی سپلائی چین پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے سے ملاقات میں واضح کیا کہ امریکہ فی الحال یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ یوکرینی فورسز کو ان کے استعمال کی تربیت حاصل کرنے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے۔
ادھر یورپی یونین نے بھی روس کے خلاف پابندیوں کے 19ویں پیکیج کی منظوری دے دی ہے، جس میں روسی مائع قدرتی گیس (LNG) کی درآمد پر مکمل پابندی شامل ہے۔ اسی دوران امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے یوکرین کو مغربی اتحادیوں کی جانب سے فراہم کیے گئے کچھ طویل فاصلے کے میزائلوں کے استعمال پر عائد پابندی ہٹا دی ہے، تاہم صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ “فیصلہ ابھی زیرِ غور ہے۔”
صدر ٹرمپ آئندہ ہفتے جنوبی کوریا میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے، جہاں وہ امید رکھتے ہیں کہ چین اپنے اثر و رسوخ سے روسی صدر پوتن کو یوکرین میں جنگ بندی پر آمادہ کرے گا۔ ماہرین کے مطابق، امریکہ کا یہ تازہ اقدام نہ صرف روس کے خلاف اقتصادی دباؤ میں اضافہ کرے گا بلکہ عالمی توانائی منڈی اور سفارتی توازن پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
