روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو نے ایٹمی توانائی سے چلنے والے اپنے جدید ترین کروز میزائل بورے ویستنک (Burevestnik) کا حتمی اور کامیاب تجربہ مکمل کر لیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، کریملن کی جانب سے جاری ویڈیو میں پوتن نے فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ فیصلہ کن تجربات اب مکمل ہو چکے ہیں اور انہوں نے اس ہتھیار کو روسی مسلح افواج میں شامل کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تیاری کا حکم دیا ہے۔
صدر پوتن نے بورے ویستنک کو ایک منفرد تخلیق قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کسی ملک کے پاس اس نوعیت کا ہتھیار موجود نہیں۔ ان کے مطابق یہ میزائل لامحدود رینج رکھتا ہے اور کسی بھی دفاعی نظام کو چکمہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روسی فوج کے چیف آف اسٹاف ویلیری گیرسیموف کے مطابق، 21 اکتوبر کو ہونے والے آخری تجربے میں میزائل نے 15 گھنٹے تک پرواز کی اور 14 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جو اس کی حتمی صلاحیت کی مکمل حد نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بورے ویستنک کی تکنیکی خصوصیات اسے کسی بھی فاصلے پر انتہائی محفوظ اہداف کو درستگی سے نشانہ بنانے کے قابل بناتی ہیں۔
یہ ہتھیار روس کی نیوکلئیر اسٹریٹیجک فورسز کے جدید ترین نظام کا حصہ ہے۔ ولادیمیر پوتن نے 2018 میں اس میزائل کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، اس وقت ان کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار امریکی دفاعی نظاموں کو بھی بیکار کر دے گا۔
ماہرین کے مطابق، یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب روسی افواج یوکرین میں آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہی ہیں اور کیف کی دفاعی لائنوں کو توڑنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب، ماسکو اور کیف کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد جنگ کے جلد خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ تجربہ نہ صرف روسی عسکری طاقت کی علامت ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئے اسٹریٹیجک توازن کی پیش گوئی بھی کرتا ہے، جس کے اثرات عالمی سلامتی کے ڈھانچے پر گہرے ہو سکتے ہیں۔
