وائٹ ہائوس:امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نےایک بارپھریہ دعویٰ کیا ہےکہ رواں برس مئی میں انڈیا اورپاکستان کےدرمیان ہونے والی کشیدگی کے خاتمے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) اجلاس سے خطاب کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی قیادت سے رابطہ کر کے فوجی تصادم کو رکوانے میں کردار ادا کیا۔
صدر ٹرمپ کے مطابق، میں انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر رہا تھا، اور جب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی تو میں نے مودی اور پاکستانی قیادت کو پیغام دیا کہ اگر جنگ جاری رہی تو تجارتی معاہدہ ممکن نہیں ہوگا۔ دو دن بعد دونوں ملکوں نے رابطہ کیا اور لڑائی رک گئی۔انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ بائیڈن ایسا کر سکتے تھے؟ مجھے نہیں لگتا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے اس موضوع پر کریڈٹ لیا ہو۔ اس سے قبل وہ امریکہ، قطر، سعودی عرب، مصر اور برطانیہ میں بھی مختلف تقاریر کے دوران اس کارنامے کا ذکر کر چکے ہیں۔ تاہم، انڈین حکومت صدر ٹرمپ کے دعووں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے، جس کی وجہ سے واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں سرد مہری بڑھ گئی ہے۔
دوسری جانب، پاکستان کی حکومت عمومی طور پر ٹرمپ کے مؤقف کی تائید کرتی نظر آتی ہے، جبکہ انڈیا کے اندر حزبِ اختلاف، خصوصاً انڈین نیشنل کانگریس، نے اس معاملے کو سیاسی نعرہ بنا لیا ہے۔ کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر صدر ٹرمپ کی تقریر کا ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ 56واں موقع ہے جب ٹرمپ نے آپریشن سندور کو رکوانے کی بات کی ہے۔
جے رام رمیش نے وزیر اعظم مودی کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا، خود کو 56 انچ کا سینہ کہنے والا اب پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے اور خاموش ہے۔انہوں نے مزید طنز کیا کہ اب سمجھ آیا کہ ان کا دوست نئی دہلی میں انہیں گلے لگانے سے کیوں گریز کر رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، انڈیا کی حکومت کو اس معاملے پر سفارتی دباؤ کا سامنا ہے، جب کہ روس سے تیل کی خریداری پر امریکی دباؤ کے باعث تجارتی سطح پر بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف بین الاقوامی تعلقات بلکہ انڈیا کی اندرونی سیاست میں بھی نیا رخ اختیار کر چکا ہے
