چھ سال کے طویل وقفے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی پہلی بالمشافہ ملاقات نے عالمی سفارتی منظرنامے میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہونے والی اس ملاقات نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں برف پگھلائی بلکہ مستقبل کے تجارتی اور اقتصادی تعاون کی نئی بنیاد بھی رکھ دی۔
ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ملاقات کو انتہائی کامیاب قرار دیا اور بتایا کہ وہ اپریل میں چین کا دورہ کریں گے، جبکہ شی جن پنگ آئندہ چند ماہ میں امریکہ کے دورے پر جائیں گے۔ ٹرمپ نے چینی صدر کی تعریف کرتے ہوئے انہیں "ایک طاقتور ملک کے شاندار رہنما” قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک نے کئی اہم معاملات کو حتمی شکل دے دی ہے۔
تجارتی محاذ پر ہونے والی پیش رفت خاص طور پر اہم ہے۔ روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے چین کی درآمدی اشیاء پر عائد محصولات میں 47 فیصد تک کمی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کے بدلے میں چین نے امریکہ سے سویا بین کی خریداری دوبارہ شروع کرنے، نایاب معدنیات (ریئر ارتھ) کی برآمد بحال کرنے اور فینٹینائل جیسی خطرناک مصنوعی منشیات کی غیر قانونی تجارت پر سخت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا ملاقات میں تائیوان کا مسئلہ زیرِ بحث آیا، تو انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ یہ معاملہ کبھی گفتگو کا حصہ نہیں بنا، تائیوان کا ذکر تک نہیں ہوا۔” تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں رہنما فی الحال اقتصادی تعاون کو ترجیح دے رہے ہیں، نہ کہ متنازعہ سیاسی معاملات کو۔
صدر ٹرمپ نے مزید انکشاف کیا کہ امریکہ اور چین یوکرین کے معاملے پر بھی ایک ساتھ کام کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔ ان کے بقول: “یوکرین کے معاملے پر ہماری طویل گفتگو ہوئی، اور ہم مل کر دیکھیں گے کہ امن کے لیے کیا ممکن اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب چینی صدر شی جن پنگ نے اپنی سرکاری نیوز ایجنسی ژن ہوا کے ذریعے جاری بیان میں کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی و تجارتی معاملات پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے، دونوں ممالک نے اپنی ٹیموں کو ہدایت کی ہے کہ اس اتفاق کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ عالمی معیشت میں استحکام آئے۔ شی نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ دونوں ممالک ہر مسئلے پر متفق نہیں، مگر انہیں “دوست اور شراکت دار بننے کی کوشش” جاری رکھنی چاہیے۔
ملاقات کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے شی جن پنگ کو ایک سخت مگر منصف مذاکرات کار قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ یہ ملاقات “بہت کامیاب” رہے گی۔ شی جن پنگ نے بھی ٹرمپ سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “آپ سے دوبارہ مل کر بہت اچھا لگا۔ چین اور امریکہ بطور بڑی طاقتیں مشترکہ ذمہ داری نبھا سکتے ہیں اور دنیا کے لیے مثبت اقدامات کر سکتے ہیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اہم معدنیات، سیمی کنڈکٹرز اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر بوسان میں ہونے والی اس ملاقات نے عالمی سطح پر امید کی ایک نئی کرن روشن کر دی ہے کہ شاید واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات دوبارہ تعاون اور توازن کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔
ملاقات سے قبل ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ” پر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے محکمہ دفاع کو دیگر ایٹمی طاقتوں کے برابر نیوکلیئر تجربات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان کے بقول، روس دوسرے نمبر پر ہے اور چین تیزی سے تیسرے مقام سے اوپر آ رہا ہے، لہٰذا امریکہ کو اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ بیان عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا، تاہم بوسان میں ہونے والی ملاقات نے کچھ حد تک کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کیا۔
عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ اور شی جن پنگ اپنی گفتگو کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ملاقات دنیا کے لیے ایک سفارتی سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے، جو عالمی معیشت اور سیاسی استحکام دونوں پر مثبت اثر ڈالے گی۔
