ماسکو: روس نے واضح کیا ہے کہ اس کے حالیہ ہتھیاروں کے تجربات جوہری نوعیت کے نہیں ہیں اور امریکا کی جانب سے جوہری تجربات کی بحالی کی صورت میں ماسکو مناسب اور متوازن جواب دے گا۔ کریملن کے مطابق، روس کے بیوریوسٹنک (Burevestnik) نامی ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل اور پوسائیڈن (Poseidon) زیرِآب ڈرون کے تجربات کو کسی بھی طور پر جوہری دھماکے کے مترادف نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہ تردید اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1992 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔ امریکی صدر کے مطابق یہ اقدام دیگر ممالک کے پروگراموں کے مقابلے میں مساوی بنیاد پر امریکی دفاع کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا کہ ماسکو کو کسی بھی ملک کے جوہری تجربات کرنے کی معلومات نہیں اور اگر امریکا مورٹوریم سے انحراف کرتا ہے تو روس بھی اسی کے مطابق ردعمل دے گا۔ یاد رہے کہ 1996 میں دونوں ممالک نے جامع جوہری تجربہ پابندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد دنیا بھر میں جوہری تجربات کا خاتمہ تھا، لیکن امریکا نے آج تک اسے قانونی حیثیت نہیں دی اور روس نے 2023 میں اس کی توثیق واپس لے لی، تاہم کریملن کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب جوہری تجربات کی بحالی نہیں۔
تاریخی پس منظر میں، سویت یونین نے آخری بار 1990 میں جوہری تجربہ کیا تھا، جبکہ روس نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی کوئی جوہری دھماکا نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیش رفت عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کشیدگی میں اضافہ کر سکتی ہے اور بین الاقوامی برادری کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے
