چینی صدر شی جن پنگ نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی عالمی نگرانی اور ضوابط سازی کے لیے ایک نئے بین الاقوامی ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس کا نام ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن (WAICO) رکھا گیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر گیونگ جو میں ہونے والے ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں کیا۔ صدر شی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس ادارے کا مقصد مصنوعی ذہانت کی ترقی، اخلاقی رہنمائی اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ یہ ٹیکنالوجی چند طاقتور ممالک کی اجارہ داری سے نکل کر پوری انسانیت کے مفاد میں استعمال ہو سکے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ پہلا موقع تھا جب صدر شی نے اس منصوبے پر کھل کر بات کی۔ اس سے قبل چین اس تجویز کو خاموشی سے مختلف ممالک کے ساتھ شیئر کر رہا تھا۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی ایک عالمی معاملہ ہے، اس کے خطرات اور مواقع دونوں مشترکہ ہیں، اس لیے اس کی نگرانی اور ضابطہ سازی بھی عالمی سطح پر ہونی چاہیے۔
شی جن پنگ نے تجویز پیش کی کہ یہ نیا ادارہ چین کے شہر شنگھائی میں قائم کیا جا سکتا ہے، جو ملک کا بڑا تجارتی اور ٹیکنالوجی مرکز ہے۔ شنگھائی میں پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے متعلق کئی تحقیقی ادارے اور بین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ اس ادارے کے ذریعے وہ دنیا کو یہ پیغام دے کہ وہ تکنیکی ترقی میں ایک ذمہ دار اور باہمی تعاون پر یقین رکھنے والا ملک ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے جو دنیا کی تقریباً نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سال کا اجلاس اس وقت ہوا جب عالمی معیشت تجارتی تنازعات، برآمدی پابندیوں اور محصولات کے دباؤ کا شکار ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں جاری مسابقت نے اس اجلاس کو مزید اہم بنا دیا۔
شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ایپیک ممالک کو گرین ٹیکنالوجی، جیسے کہ سولر پینلز، برقی گاڑیاں اور بیٹریوں کی تیاری کے میدان میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ماحول دوست ٹیکنالوجی کو عام کرنے سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ دنیا کو پائیدار ترقی کی جانب لے جایا جا سکے گا۔
دوسری جانب امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے اے آئی کے ضوابط طے کرنے کی تجویز کو تسلیم نہیں کیا اور اس سلسلے میں ملکی سطح پر قوانین بنانے کو ترجیح دی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک اجلاس کے مکمل سیشن میں شریک نہیں ہوئے بلکہ شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد واشنگٹن واپس چلے گئے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر نرم کی جائیں گی۔
چین کے اندر یہ اقدام اس کی طویل المدتی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ "الگورتھمک خودمختاری” حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چینی کمپنیاں جیسے ڈیپ سیک کم لاگت والے اے آئی ماڈلز تیار کر رہی ہیں جنہیں حکومت ملکی سطح پر فروغ دے رہی ہے تاکہ مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کم ہو۔
ماہرین کے مطابق شی جن پنگ کی یہ تجویز صرف ایک تکنیکی منصوبہ نہیں بلکہ ایک سیاسی حکمتِ عملی بھی ہے۔ چین اس ادارے کے ذریعے عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے قواعد و ضوابط میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہ صرف عالمی نظام کا حصہ نہ رہے بلکہ اس کے اصول بنانے میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔
اجلاس کے اختتام پر ایپیک کے رکن ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں مصنوعی ذہانت کی ذمہ دارانہ ترقی اور بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی جیسے عالمی مسائل پر تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا جو شینزین شہر میں منعقد ہوگا۔ یہ شہر جو کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، آج روبوٹکس، برقی گاڑیوں اور سیمی کنڈکٹر صنعت کا مرکز بن چکا ہے۔ شی جن پنگ نے کہا کہ شینزین کی ترقی چین کی تکنیکی تبدیلی اور جدت کی علامت ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چین مستقبل میں دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔
مجموعی طور پر، شی جن پنگ کی جانب سے پیش کردہ یہ تجویز چین کے اس عزم کی عکاس ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے عالمی نظام میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ دوسرے بڑے ممالک چین کی اس پیشکش کو تعاون کا موقع سمجھتے ہیں یا اسے ایک نئی جیو پولیٹیکل چال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
