اپریل 2023 میں سوڈان ایک سنگین خانہ جنگی میں ڈوب گیا، جب ملک کی باقاعدہ فوج اور ایک طاقتور نیم فوجی تنظیم، ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف)، کے درمیان شدید اقتدار کی کشمکش سامنے آئی۔
اس جنگ نے قحط کو جنم دیا اور مغربی خطے دارفور میں نسل کشی کے الزامات عائد ہوئے۔ حال ہی میں الفاشر شہر آر ایس ایف کے قبضے میں چلا گیا جس پر وہاں کے لاکھوں شہریوں کی جانوں کے حوالے سے شدید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 1,50,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ عالمی ادارہ اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دے چکا ہے۔یہ ہے پس منظر۔جنگ کیوں شروع ہوئی؟
یہ تنازع 2019 میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی کا تازہ ترین باب ہے۔ عمر البشیر نے 1989 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سنبھالا تھا اور تقریباً تین دہائیوں تک حکمران رہے۔
عوامی احتجاج کے بعد فوج نے انہیں ہٹا دیا، مگر شہری طبقات جمہوریت کا مطالبہ کرتے رہے۔ بعدازاں فوج اور سیاسی جماعتوں کی مشترکہ حکومت بنی، جسے اکتوبر 2021 میں ایک اور فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کردیا گیا۔یہ بغاوت دو بااثر شخصیات نے کی:
جنرل عبدالفتاح البرہان، آرمی چیف اور ان کے نائب جنرل محمد حمدان دگالو، المعروف "حمیدتی”، آر ایس ایف کے سربراہ بعد میں دونوں کے تعلقات بگڑ گئے۔ بڑا تنازع یہ تھا کہ 1 لاکھ اہلکاروں پر مشتمل آر ایس ایف کو قومی فوج میں ضم کرنے کا طریقہ اور اس نئے عسکری ڈھانچے کی قیادت کون کرے گا۔
دونوں رہنماؤں پر اپنی طاقت و دولت برقرار رکھنے کی خواہش کا الزام لگایا جاتا ہے۔
15 اپریل 2023 کو جھڑپیں شروع ہوئیں، جو فوراً ملک گیر خانہ جنگی میں بدل گئیں۔ آر ایس ایف نے ابتدا میں دارالحکومت خرطوم کا زیادہ تر حصہ قبضے میں لے لیا، لیکن تقریباً دو سال بعد مارچ 2025 میں فوج نے اسے واپس لے لیا۔
آر ایس ایف کون ہے؟ ریپڈ سپورٹ فورسز 2013 میں قائم کی گئی اور اس کا تعلق بدنام زمانہ جنجوید ملیشیا سے ہے، جس نے دارفور میں غیر عرب آبادی کے خلاف ظلم و بربریت اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا کیا۔
جنرل حمیدتی نے اسے ایک طاقتور قوت بنایا، جو یمن اور لیبیا کے تنازعات میں بھی ملوث رہی۔ وہ سوڈان کی سونے کی کانوں پر بھی کنٹرول رکھتے ہیں اور الزام ہے کہ وہ سونا متحدہ عرب امارات کو اسمگل کرتے ہیں۔
فوج کا دعویٰ ہے کہ متحدہ عرب امارات آر ایس ایف کو مدد فراہم کر رہا ہےلیبیا کے جنرل خلیفہ حفتر بھی آر ایس ایف کی عسکری مدد اور اسلحہ کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔یو اے ای یہ الزامات مسترد کرتا ہے۔
جون 2025 میں آر ایس ایف نے لیبیا اور مصر کی سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا، اور اکتوبر کے آخر میں الفاشر بھی لے لیا، جس کے بعد دارفور کا تقریباً تمام علاقہ اس کے قبضے میں ہے۔
آر ایس ایف نے اپنا متوازی حکومت نظام بھی قائم کردیا ہے، جس کے بعد خدشہ ہے کہ سوڈان ایک بار پھر تقسیم ہوسکتا ہے جیسا کہ 2011 میں جنوبی سوڈان علیحدہ ہوا تھا۔
فوج شمال اور مشرق کا بڑا حصہ کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی اہم اتحادی مصر ہے۔ جنرل البرہان نے بحیرہ احمر کے کنارے واقع پورٹ سوڈان کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے، تاہم یہ شہر بھی محفوظ نہیں رہا اور مارچ میں آر ایس ایف نے اس پر ڈرون حملہ کیا۔
مارچ 2025 میں فوج نے خرطوم واپس لے لیا، جس کے بعد جنرل البرہان نے اعلان کیا: "خرطوم آزاد ہو گیا ہے”۔لیکن شہر تباہ ہوچکا تھا۔ دفاتر، بینک، ہسپتال اور ایئرپورٹ کھنڈر بن چکے تھے۔
فوج نے صوبہ الجزیرہ بھی واپس لے لیا، جہاں 2023 میں آر ایس ایف کے قبضے کے بعد لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔
البتہ دارفور کا آخری بڑا شہر الفاشر بھی اکتوبر کے اختتام تک آر ایس ایف کے قبضے میں چلا گیا، جہاں طویل محاصرے کے دوران خوراک بند رہی اور بڑی تعداد میں لوگ بھوک اور تشدد سے ہلاک ہوئے۔
آر ایس ایف نے شہر کے گرد مٹی کی دیوار بھی کھڑی کردی تھی تاکہ لوگ باہر نہ جاسکیں اور امداد شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ قریب واقع زمزم کیمپ بھی تباہ کر دیا گیا۔
کیا وہاں نسل کشی ہو رہی ہے؟بہت سے دارفوری باشندے سمجھتے ہیں کہ آر ایس ایف اور اس کے اتحادی غیر عرب آبادی کو ختم کر کے علاقے کو عرب حکمرانی کے تحت لانا چاہتے ہیں۔
مارچ 2024 میں یونیسف نے بچوں کے خلاف بدترین جنسی جرائم کی رپورٹس جاری کیں، جن میں ایک سال تک کے بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں شامل تھیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا کہ یہ Massalit نسل اور دیگر غیر عرب گروہوں کے خلاف مکمل نسل کشی ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے اگرچہ اس نتیجے تک نہیں پہنچی، لیکن امریکہ نے جنوری 2025 میں اسے باقاعدہ نسل کشی قرار دیا اور کہا کہ: "آر ایس ایف نے نسلی بنیادوں پر مردوں، بچوں اور شیرخوار بچوں کو قتل کیا، خواتین کا ریپ کیا، اور بھاگتے شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔”اس کے بعد امریکہ نے جنرل حمیدتی اور جنرل البرہان پر پابندیاں لگائیں۔
سوڈانی حکومت نے یو اے ای کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا، مگر عدالت نے اسے سماعت سے انکار کر دیا۔ سعودی عرب اور بحرین میں کئی مذاکرات ہوئے مگر ناکام رہے۔ بی بی سی کے مطابق دونوں فریقین، خاص طور پر فوج، جنگ بندی پر آمادہ نہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبریسس نے کہا کہ دنیا افریقہ کے تنازعات کو نظرانداز کر رہی ہے، اور اس میں نسل پرستی کا عنصر موجود ہے۔آئی سی جی نے عالمی سفارتی کوششوں کو "کمزور”، جبکہ ایمنسٹی نے بین الاقوامی ردعمل کو "انتہائی ناکافی” قرار دیا۔
امدادی سرگرمیاں سابق امریکی حکومت کی امداد میں کٹوتی کے بعد شدید متاثر ہوئیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 2 کروڑ 40 لاکھ لوگ شدید غذائی بحران کا شکار ہیں اور امدادی باورچی خانوں کا 80 فیصد بند ہو چکا ہے۔اس جنگ کو اکثر "دنیا کی بھولی ہوئی جنگ” کہا جا رہا ہے۔
سوڈان کہاں ہے؟ سوڈان شمال مشرقی افریقہ میں واقع ہے، براعظم کا ایک بڑا ملک جس کا رقبہ 19 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ یہ سات ممالک کے ساتھ سرحد رکھتا ہے اور بحیرہ احمر کے ساتھ ساحل اور دریائے نیل کا اہم راستہ ہے۔ آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور سرکاری زبانیں عربی اور انگریزی ہیں۔
جنگ سے پہلے بھی یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا، حالانکہ یہاں سونے کے ذخائر ہیں۔ 2022 میں فی کس آمدنی صرف 750 ڈالر سالانہ تھی۔ جنگ کے بعد حکومتی آمدنی میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے۔
