واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی جوہری سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ امریکی ٹی وی پروگرام سکسٹی منٹس کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان، شمالی کوریا اور دیگر ممالک ایٹمی تجربات کر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ٹرمپ نے انٹرویو میں کہا کہ شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتےوہ زمین کے نیچے کرتے ہیں۔ ہمیں بھی یہ جاننا ہوگا کہ ہمارے ہتھیار کام کرتے ہیں یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں اور انہیں یقین دہانی کے لیے ان کی جانچ ضروری ہے تاکہ ہم ہر وقت تیار رہیں۔
پروگرام کے میزبان نے نشاندہی کی کہ روس اور چین نے برسوں سے کوئی ایٹمی تجربہ نہیں کیا، تاہم ٹرمپ نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روس اور چین بھی تجربات کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ ان کے بقول امریکہ چونکہ ایک “کھلا معاشرہ” ہے، اس لیے یہاں ایسی سرگرمیوں پر کھل کر بات کی جاتی ہے، جب کہ دیگر ممالک ایسی خبروں کو چھپا لیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی ترجیح جنگ نہیں بلکہ تیاری ہے، مگر اگر دوسرے ممالک اپنی ایٹمی صلاحیت آزما رہے ہیں تو امریکہ بھی پیچھے نہیں رہ سکتا۔ ان کے مطابق ہم اپنے ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ہی ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں پینٹاگون کو فوری طور پر ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی تھی، جس نے عالمی سطح پر الجھن اور تشویش پیدا کر دی تھی کہ آیا امریکہ 1992 کے بعد پہلی بار کھلے ایٹمی تجربات کرنے جا رہا ہے۔
امریکی صدر کے ان بیانات نے عالمی سطح پر عدمِ پھیلاؤ معاہدوں (Non-Proliferation Treaties) ، نیوکلیئر شفافیت اور عالمی توازنِ طاقت کے بارے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ واقعی تجربات دوبارہ شروع کرتا ہے تو دیگر طاقتیں خصوصاً روس اور چین بھی ردعمل میں ایسے اقدامات کر سکتی ہیں، جو عالمی امن کے لیے خطرناک ہوں گے۔
پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان پر دفترِ خارجہ سے ردعمل طلب کیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق حکومتِ پاکستان سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم تاحال کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیانات نہ صرف امریکہ کی خارجہ پالیسی کے رخ کو تبدیل کر سکتے ہیں بلکہ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر سکتے ہیں، جہاں دفاع کے نام پر ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرناک مقابلہ دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
