نیویارک:ترقی پسند نظریات کے حامل 34 سالہ ڈیموکریٹ رہنما ظہران ممدانی نے گزشتہ روز تاریخ رقم کرتے ہوئے نیو یارک شہر کے میئر کا انتخاب جیت لیا۔ انہوں نے ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا اور آزاد امیدوار سابق گورنر اینڈریو کومو کو واضح اکثریت سے شکست دی۔
خبر رساں ادارے Associated Press کے مطابق غیر سرکاری نتائج کے تحت ممدانی نے 50.3 فیصد (10 لاکھ 24 ہزار 794 ووٹ) حاصل کیے، جب کہ کومو کو 41.6 فیصد (8 لاکھ 47 ہزار 200 ووٹ) اور سلوا کو 7.1 فیصد (1 لاکھ 45 ہزار 360 ووٹ) ملے۔ الیکشن میں 20 لاکھ سے زائد نیویارکرز نے ووٹ ڈالے، جو گزشتہ پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔
فتح کے بعد اپنے پرجوش خطاب میں ظہران ممدانی نے نیو یارک کے شہریوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا شہر بنائیں گے جہاں تنوع کو منایا جائے گا اور ہر طبقے کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔
انہوں نے کہا ہم ایک ایسا سٹی ہال تعمیر کریں گے جو نیویارک کے یہودیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا، 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کے ساتھ مساوات پر مبنی تعلق قائم کرے گا، اور ہر اس شہری کے لیے جگہ بنائے گا جو اس شہر کو اپنا گھر کہتا ہے۔ اب نیویارک وہ شہر نہیں رہے گا جہاں اسلاموفوبیا کی بنیاد پر سیاست کی جائے۔
ممدانی نے مزید کہا کہ محنت کش عوام کے ہاتھوں میں طاقت کی منتقلی ان کے مشن کا مرکزی نکتہ ہے۔آج رات، تمام تر مخالفتوں اور دباؤ کے باوجود، ہم نے یہ طاقت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ مستقبل اب ہمارے ہاتھوں میں ہےظہران ممدانی کی کامیابی محض انتخابی جیت نہیں بلکہ نیو یارک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ وہ نہ صرف نیو یارک کے پہلے مسلمان میئر بنے ہیں بلکہ جنوبی ایشیائی نژاد اور افریقہ میں پیدا ہونے والے پہلے شخص بھی ہیں جنہوں نے یہ منصب حاصل کیا۔
وہ یوگینڈا میں پیدا ہوئے، سات سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہوئے، اور 2018 میں امریکی شہریت حاصل کی۔ ممدانی نیو یارک کے علاقے کوئنز سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے وہ ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
ظہران ممدانی کو اپنی انتخابی مہم کے دوران معروف ترقی پسند رہنماؤں برنی سینڈرز اور الیکزانڈریا اوکاسیو کورٹیز کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ انہوں نے اپنی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ رہائش کے بحران، ٹرانسپورٹ کے مسائل، محنت کش طبقے کے حقوق اور اسلاموفوبیا کے خاتمے پر توجہ دیں گے۔
ان کے نعرے ایک ایسا نیو یارک جو سب کا ہو نے لاکھوں نوجوان ووٹرز اور اقلیتی برادریوں کو متحرک کیا۔ممدانی کے بڑے حریف، سابق گورنر اینڈریو کومو، جو روایتی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے، نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک کے شہریوں نے تبدیلی کے حق میں فیصلہ دیا ہے
ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا نے ممدانی کی جیت کو “شہر کے لیے تاریخی لمحہ قرار دیا، تاہم خبردار کیا کہ اب ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق ممدانی کی کامیابی نے نہ صرف نیویارک بلکہ پورے امریکہ میں ترقی پسند سیاست کو نئی زندگی دی ہے۔ یہ جیت صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کے لیے بھی ایک بڑا سیاسی دھچکا سمجھی جا رہی ہے۔
The Guardian اور PBS کے مطابق، ممدانی کی فتح اس بات کا ثبوت ہے کہ نیویارک کے شہریوں نے شمولیت، مساوات، اور انصاف پر مبنی حکمرانی کو ترجیح دی ہے۔عہدہ سنبھالنے کے بعد ممدانی ایک صدی میں سب سے کم عمر میئر ہوں گے۔ وہ اس بات کی علامت ہیں کہ نیویارک کی نوجوان نسل اب روایتی سیاست سے بیزار ہو کر خود قیادت کے میدان میں اتر رہی ہے۔
ظہران ممدانی کی جیت صرف ایک شخص یا جماعت کی فتح نہیں بلکہ امریکہ کے شہری تنوع اور جمہوریت کی جیت ہے۔ یوگینڈا سے نیویارک سٹی ہال تک کا ان کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ خواب، جب جدوجہد سے جڑے ہوں، تو سرحدیں معنی کھو دیتی ہیں۔نیویارک اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہےایک ایسا دور جہاں قیادت رنگ، نسل، مذہب یا پس منظر سے نہیں بلکہ نظریے، خدمت اور شمولیت سے پہچانی جائے گی۔
