اردن کی ملکہ رانیہ عبداللہ نے جرمنی کے دورے کے دوران ’ون ینگ ورلڈ سمٹ‘ میں نوجوان مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ غزہ جنگ کے سلسلے میں استعمال ہونے والی نفرت انگیز زبان نسل کشی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ انہوں نے اس زبان کو نازی دور کے پروپیگنڈا سے مشابہ قرار دیا، جس نے 1930 اور 1940 کی دہائی میں یہودیوں کی ہولوکاسٹ میں کردار ادا کیا۔
ملکہ رانیہ نے کہا کہ ہر نسل کشی کی ابتدا الفاظ سے ہوتی ہے، اور نفرت انگیز تقریر کو صرف بات چیت سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرناک ہے۔ انہوں نے تاریخی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ نازی پارٹی نے یہودیوں کو ‘کیڑے مکوڑے’ کہا، روانڈا میں ٹیٹسی اقلیت کو ‘کاکروچز’ کہا گیا، اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو ‘آوارہ کتوں’ سے تشبیہ دی گئی۔
انہوں نے اسرائیل کے سابق وزیرِ دفاع یواف گالانٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جن کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کے الزامات زیرِ سماعت ہیں۔ گالانٹ نے 2023 میں غزہ کے عوام کو ‘انسانی جانور’ قرار دیا اور علاقے پر مکمل محاصرہ نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملکہ رانیہ نے کہا:
جب ایک وزیر عوام کو جانور سمجھ کر تشدد کو جائز قرار دیتا ہے تو ظلم نہ صرف ممکن بلکہ ضروری لگنے لگتا ہے۔
ان بیانات کو جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے میں بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ علاقے کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا ہے۔
ملکہ رانیہ نے یورپ میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا اور فلسطین مخالف نفرت انگیز تقاریر کو بھی نازی طرز کے بیانیے سے مشابہ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ایسی زبان انسانیت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اردن نے حالیہ مہینوں میں غزہ میں فضائی امداد پہنچانے کے اقدامات کیے ہیں، تاہم غزہ جنگ کی وجہ سے اردن اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے
