واشنگٹن: امریکی وفاقی جج مارک ایل وولف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قانون پر مبنی اقدامات کے خلاف احتجاجاً اپنا استعفیٰ دے دیا ہے، جسے امریکی عدلیہ اور سیاست میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ جج وولف، جنہوں نے 50 سالہ شاندار عدالتی خدمات انجام دی ہیں، نے واضح کیا کہ اب خاموش رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے استعفیٰ کے ساتھ ایک مضمون بھی لکھا، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ جمہوریت کے تحفظ کی علامت ہے اور صدر ٹرمپ قانون کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
مارک ایل وولف نے الزام عائد کیا کہ صدر ٹرمپ اپنے مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اپنے حامیوں اور سرمایہ کار دوستوں کو سزا سے بچا رہے ہیں، جس سے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوال اٹھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد رہنا چاہیے تاکہ شہریوں کے حقوق اور آئینی اصولوں کا تحفظ ممکن ہو۔
واضح رہے کہ مارک ایل وولف کو صدر رونالڈ ریگن نے 1985 میں وفاقی جج مقرر کیا تھا اور اب تقریباً 38 برس تک انہوں نے مختلف عدالتی فرائض سرانجام دیے، جن میں حساس اور اہم مقدمات شامل تھے۔ ان کا استعفیٰ امریکی عدلیہ میں شفافیت، انصاف اور سیاسی دباؤ کے خلاف ایک علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، جج وولف کا یہ قدم نہ صرف عدلیہ کی آزادی کی یاد دہانی ہے بلکہ آئندہ امریکی سیاسی منظرنامے میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے، خاص طور پر قانون اور سیاست کے ملاپ پر بحث میں اضافہ متوقع ہے۔ ان کا استعفیٰ امریکی عوام اور عالمی برادری کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ عدلیہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔
یہ اقدام صدر ٹرمپ کے سیاسی کیریئر اور عدالتی نظام کے توازن پر اہم اثر ڈال سکتا ہے اور امریکی تاریخ میں عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک یادگار لمحہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
