کیف:یوکرین میں ایک بڑے کرپشن اسکینڈل نے حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ یہ اسکینڈل توانائی کے شعبے سے منسلک ہے اور اس کی زد میں کئی اعلیٰ عہدیدار، بشمول موجودہ وزیرِ انصاف اور سابق وزیرِ توانائی، آ چکے ہیں۔
یوکرین کی سرکاری جوہری توانائی کمپنی "اینرگو ایٹم” (Energoatom) کے منصوبوں میں مبینہ طور پر ٹھیکے داروں سے 10 سے 15 فیصد تک رشوت وصول کی جاتی رہی تاکہ انہیں بڑے ٹھیکے اور ادائیگیوں میں ترجیح دی جا سکے۔
تحقیقات کے مطابق اس بدعنوانی کی کل مالیت 100 ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کرتی ہے، جو یوکرین کے توانائی ڈھانچے کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔الزامات کا مرکز سابق وزیرِ توانائی اور موجودہ وزیرِ انصاف جرمن گالوشینکوہیں، جن پر رشوت کے نظام کی نگرانی کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ان کے قریبی ساتھی اور معروف کاروباری شخصیت تیمور منڈچ (Timur Mindich) کا نام بھی سامنے آیا ہے، جو صدر ولادیمیر زیلنسکی کے پرانے کاروباری پارٹنر رہ چکے ہیں۔یوکرین کے اینٹی کرپشن بیورو کے مطابق پانچ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ سات مزید افراد تفتیش کے لیے زیرِ نگرانی ہیں۔صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس اسکینڈل کو بالکل ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
ان کے حکم پر وزیرِ انصاف اور وزیرِ توانائی دونوں کو معطل کر دیا گیا اور بعد ازاں دونوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔حکام کے مطابق توانائی کمپنی میں سائے کے مینیجرز یعنی غیر مجاز افراد کی مداخلت سے پورا نظام بگڑ گیا تھا۔یہ اسکینڈل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین روسی حملوں کے دوران اپنے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
تاہم کرپشن کے ان انکشافات نے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے کیونکہ بجلی کی قلت اور بار بار لوڈ شیڈنگ پہلے ہی عام شہریوں کو مشکلات میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔یوکرین کی حکومت شفافیت اور احتساب کو یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بنیادی شرط قرار دیتی رہی ہے، مگر یہ نیا اسکینڈل اس راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ذمہ داروں کا احتساب ہوگا یا یہ معاملہ بھی ماضی کے اسکینڈلز کی طرح وقتی ردعمل تک محدود رہ جائے گا۔
