واشنگٹن/ریپبلک آف وینزویلا: امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر بحیرہ کیریبیئن میں “سدرن اسپیئر” کے نام سے ایک وسیع فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے، جس کے دوران ممکنہ طور پر وینزویلا کے خلاف فوجی طاقت استعمال کی جا سکتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر اعلان کیا کہ یہ آپریشن مغربی نصف کرہ میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اس آپریشن کی قیادت امریکی مسلح افواج کی جوائنٹ ٹاسک فورس سائوتھ کر رہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد امریکی وطن کا دفاع اور غیر قانونی منشیات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، جس سے امریکی شہری شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام خطے میں موجود بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کو لگام دینے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔
سدرن کمانڈ، جو امریکی فوج کے گیارہ متحد لڑاکا کمانڈز میں شامل ہے، وسطی اور جنوبی امریکہ اور کیریبین کے 31 ممالک میں ہنگامی منصوبہ بندی، آپریشنز اور سکیورٹی تعاون کے ذمہ دار ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف امریکی مہم میں گزشتہ ہفتے دنیا کے سب سے بڑے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کو کیریبین اور لاطینی امریکہ کے پانیوں میں تعینات کیا گیا، جس سے خطے میں امریکی بحری افواج کی موجودگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق، امریکی فوجی حکام نے وینزویلا کے خلاف متعدد فوجی کارروائی کے آپشن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کیے ہیں، تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ امریکہ نے اپنے بیانات میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی موجودگی کا مقصد غیر قانونی منشیات کے کاروبار میں ملوث عناصر کو کنٹرول کرنا ہے، لیکن ان دعووں کے حق میں ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا، وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے امریکی اقدام کو "بلا جواز جنگ” قرار دیا اور کہا کہ امریکی فوجی تعیناتی کا اصل مقصد انہیں اقتدار سے ہٹانا ہے۔ مادورو نے خطے میں امریکی بحریہ کی موجودگی کو گزشتہ صدی کے دوران وینزویلا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور عالمی برادری سے فوری توجہ کا مطالبہ کیا۔
یہ آپریشن علاقائی سکیورٹی، بین الاقوامی تعلقات اور امریکہ و وینزویلا کے تعلقات کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے، جبکہ خطے میں سیاسی کشیدگی اور فوجی حرکیات مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
