سعودی عرب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکہ کے دو روزہ دورے (18 اور 19 نومبر) کے اختتام پر جب ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوئی تو دونوں ملکوں نے تاریخی دوستی اور اسٹریٹجک شراکت داری کے گہرے عزم پر زور دیا اور تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ غیر معمولی دورہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری کے سمجھوتے میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے باضابطہ طور پر سعودی عرب کو امریکہ کا "غیر نیٹو اہم اتحادی” قرار دینے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ریاض کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی منظوری بھی دے دی۔
یہ امر واضح ہے کہ امریکہ کی جانب سے نیٹو سے باہر کسی ملک کو دی جانے والی عسکری اور سکیورٹی تعاون کی یہ سب سے اعلیٰ سطح ہے۔ اس حیثیت سے ملک کو کئی بنیادی اور اہم مراعات حاصل ہوتی ہیں جن میں عسکری اور دفاعی تعاون میں سہولتیں اور جدید امریکی اسلحہ نسبتاً آسان شرائط پر خریدنے کی اجازت شامل ہے۔
اس درجہ بندی کے تحت مذکورہ ملک کو امریکی فوج سے دفاعی سازوسامان کی فراہمی میں ترجیح دی جاتی ہے اور اسے دفاعی تحقیق و ترقی کے پروگراموں تک رسائی کے ساتھ ساتھ مشترکہ عسکری ٹیکنالوجی کی تیاری میں بھی شرکت کا موقع ملتا ہے۔
اس کے علاوہ اس درجہ بندی کے ذریعے ہتھیاروں اور دفاعی نظاموں کی مشترکہ تیاری میں تعاون کے راستے بھی کھلتے ہیں۔مزید یہ کہ ناتو سے باہر اہم امریکی اتحادی کی حیثیت سے اس ملک کے لیے امریکی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لینا آسان ہو جاتا ہے اور اسے لاجسٹک سپورٹ اور عسکری مالی تعاون بھی میسر آتا ہے۔
یہ درجہ بندی خفیہ معلومات کے تبادلے اور عسکری آپریشنز کے باہمی تعاون میں بھی مددگار ہوتی ہے۔اسی تناظر میں سابق امریکی عہدیدار آموس ہوکشتائن نے سعودی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کو مضبوط شراکت داروں کی ضرورت ہے اور سعودی عرب اس حوالے سے نہایت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ خلیج کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اور عرب دنیا کی نمایاں طاقت ہے۔
سابق امریکی نائب معاون وزیر دفاع مائیک میلرائے نے بھی کہا کہ سعودی عرب کا غیر نیٹو اہم اتحادی کا درجہ حاصل کرنا اور پُرامن جوہری تعاون اس کی اسٹریٹجک اہمیت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
