اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے عالمی فورم پر واضح کیا ہے کہ پاکستان ہر قسم کے تنازع کے حل کے لیے ڈائیلاگ اور سفارت کاری کا اصولی طور پر حامی ہے، اور موجودہ روس یوکرین جنگ بھی اسی اصول کے تحت بات چیت کے ذریعے ختم ہونی چاہیے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ جاری جنگ نے خطے سمیت عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جبکہ عام شہری سب سے زیادہ مشکلات اور عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔
عاصم افتخار نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو روس–یوکرین جنگ سے شدید خدشات ہیں، کیونکہ اس تصادم کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہی کا سامنا ہے۔ انہوں نے عالمی قوانین کی روشنی میں شہریوں کی حفاظت، اور ہسپتالوں، تعلیمی اداروں سمیت اہم شہری ڈھانچوں کی سلامتی یقینی بنانے پر زور دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔” پاکستان کی نظر میں واحد قابلِ قبول راستہ یہی ہے کہ فریقین کشیدگی کم کرنے کی جانب عملی اقدامات کریں، جنگ بندی پر اتفاق پیدا کریں، اور تصادم کے خاتمے کے لیے مذاکرات کو فوری طور پر بحال کریں۔ پاکستان ہر اس سفارتی کوشش کی بھرپور حمایت کرتا ہے جو مذاکرات کی میز کو مضبوط بنائے اور پائیدار امن کا راستہ ہموار کرے۔
اسی دوران امریکی میڈیا کی جانب سے یہ حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ خفیہ طور پر روس کی مشاورت سے یوکرین جنگ کے خاتمے کا ایک نیا امن منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کی قیادت امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں، جنہوں نے متعدد یورپی اور روسی حکام سے پسِ پردہ مشاورت بھی کی ہے۔
امریکی میڈیا نے گزشتہ روز یہ دعویٰ بھی کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے اس امن منصوبے کی خاموش منظوری دے دی ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ مجوزہ روڈ میپ 28 نکات پر مشتمل ہے، جس میں یوکرین کی سلامتی، جنگ بندی کے طریقہ کار، عالمی اور یورپی سلامتی کے تحفظ، اور امریکہ کے مستقبل کے روس و یوکرین کے ساتھ تعلقات جیسے اہم پہلو شامل ہیں۔ منصوبے میں یوکرین کے لیے سکیورٹی گارنٹی اور جنگ زدہ علاقوں کی بحالی بھی شامل ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر مؤقف دہرایا ہے کہ عالمی برادری کو فریقین کو مذاکرات کی جانب لانے کے لیے سنجیدہ اور مربوط اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ موجودہ صورتِ حال میں کسی فریق کی بھی فتح ممکن نہیں، البتہ مذاکرات ہی پائیدار اور باعزت امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
