یوکرین جنگ ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے پہلی بار کھل کر امریکی امن منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ماسکو میں اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیوٹن نے تصدیق کی کہ امریکا کی جانب سے پیش کردہ 28 نکاتی دستاویز میں روس کے اہم اسٹریٹجک اور سیکیورٹی مطالبات شامل کیے گئے ہیں، جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ خطے میں دیرپا امن کے قیام اور فوجی کشیدگی کم کرنے کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
پیوٹن نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تاکید کی کہ اگر یوکرین نے اس منصوبے کو مسترد کیا تو روس میدانِ جنگ میں مزید پیش قدمی کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے روسی افواج نے حال ہی میں کیپیانسک پر مکمل کنٹرول حاصل کیا، اسی طرح دیگر اہم اور اسٹریٹجک یوکرینی علاقوں پر قبضہ کرنا بھی وقت کی بات ہے۔ انہوں نے کہاہم امن چاہتے ہیں، مگر کسی بھی قیمت پر نہیں۔ اگر یوکرین نے حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو روس کے پاس اپنے عوام اور اپنی سرزمین کی حفاظت کا اختیار موجود ہے۔
روسی صدر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ماسکو سفارتی دروازے کھلے رکھنے کے ساتھ ساتھ عسکری دباؤ بھی برقرار رکھے ہوئے ہے، تاکہ یوکرین کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔
امریکی منصوبہ کہاں اتفاق ہوا اور کہاں اختلاف باقی ہے؟پیوٹن نے بتایا کہ اگرچہ امریکی منصوبے میں کئی نقاط ایسے ہیں جو روس کے مؤقف سے مطابقت رکھتے ہیں، تاہم کچھ شقیں اب بھی قابلِ بحث ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ یوکرین کی مستقبل کی عسکری حیثیت، نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع، اور روسی اقلیتوں کے حقوق جیسے مسائل پر واضح اور تحریری ضمانت دی جائے۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر یوکرین اور امریکا مطلوبہ ترامیم پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں تو روس بھی مذاکرات میں سنجیدگی سے حصہ لے گا۔
زیلنسکی پر عالمی دباؤ بڑھ گیاکیا یوکرین امن قبول کرے گا؟پیوٹن کے اس بیان نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے لیے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو جمعرات تک امن معاہدہ قبول کرنے کی مہلت دی ہے، جس کے بعد واشنگٹن کی پالیسی میں اہم تبدیلی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
یورپی ممالک اب اس کشمکش کا حصہ بن چکے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ جنگ کا بوجھ مزید بڑھنے سے پہلے سفارتی حل تلاش کرلیا جائے۔ ماہرین کے مطابق اگر یوکرین نے معاہدے کو رد کردیا تو یہ نہ صرف روسی پیش قدمی کو مزید جواز فراہم کرے گا بلکہ مغربی امداد میں بھی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیوٹن کی جانب سے امریکی امن منصوبے کی حمایت نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو طویل جنگ کے بجائے کوئی مستحکم سیاسی حل چاہتا ہے—بشرطیکہ اس کے مفادات محفوظ رہیں۔
دوسری جانب، یوکرین کے عوام شدید تھکاوٹ، معاشی دباؤ اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے دوچار ہیں، جس کے باعث سفارتی راستے کے لیے مقامی حمایت بھی بڑھ رہی ہے۔ اب دنیا کی نظریں کیف پر ہیں کہ وہ اگلا قدم کیا اٹھاتا ہے۔
امریکا کی ڈیڈ لائن، روس کی لچکدار مگر سخت مؤقف اور جنگ کے میدان میں بدلتی ہوئی صورتحال یہ اشارہ دے رہی ہے کہ آنے والے چند دن اس پوری جنگ کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ آیا یوکرین امن کو گلے لگاتا ہے یا میدانِ جنگ میں ایک اور خونریز باب کھلنے والا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
