امریکہ کی سیاست میں جمعرات کے روز ایک غیر معمولی ہلچل اس وقت دیکھنے میں آئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایسی سخت گیر پالیسیاں پیش کیں جنہوں نے واشنگٹن میں نہ صرف سیاسی ماحول گرما دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کی نئی لہر دوڑا دی۔ ٹرمپ نے ایک سلسلہ وار پیغامات کے ذریعے اعلان کیا کہ امریکہ اب اُن ممالک سے آنے والی ہجرت کو “مستقل طور پر روکنے” کا ارادہ رکھتا ہے جنہیں وہ تیسری دنیا کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ اس اعلان کے اثرات بظاہر صرف چند افراد تک محدود نہیں، بلکہ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکا اور کیریبین کے وسیع حصوں میں مقیم لاکھوں خاندانوں پر پڑ سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیانات میں کہا کہ ملک گزشتہ کئی برسوں سے جس “مہاجرین کے بوجھ” کا سامنا کر رہا ہے، اس نے امریکی معاشرے کے سماجی توازن اور ریاستی وسائل کو کھا کھا کر کمزور کر دیا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ کو “مکمل بحالی” تک کسی بھی نئے مہاجر کو قبول نہیں کرنا چاہیے، تاکہ پہلے سے موجود مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ اگرچہ انہوں نے کسی خاص ملک کا نام نہیں لیا، لیکن مجموعی انداز سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعلان کی زد وسیع ہو سکتی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صرف ایک روز قبل امریکی انتظامیہ نے افغان شہریوں کی تمام درخواستوں کی پروسیسنگ اچانک روک دی تھی۔ اس فیصلے کے پس منظر میں وہ افسوسناک واقعہ تھا جس میں وائٹ ہاؤس کے قریب دو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی۔ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ زخمی ہونے والے دونوں میں سے ایک فوجی دم توڑ چکا ہے جبکہ دوسرا انتہائی نازک حالت میں زیر علاج ہے۔ اس واقعے کو انہوں نے بلا جھجھک براہ راست امیگریشن پالیسیوں سے جوڑ دیا۔
اپنے بیانات میں ٹرمپ نے صرف نئے مہاجرین پر پابندی کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ پہلے سے موجود تارکینِ وطن کے بارے میں بھی نہایت سخت مؤقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مہاجرین جنہیں وہ “امریکی سماجی امن کے لیے خطرہ” یا “معاشی بوجھ” سمجھتے ہیں، اُن کی شہریت واپس لینے اور انہیں ملک بدر کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کے مطابق جو لوگ امریکی اقدار کی قدر نہیں کرتے یا ملک کے لیے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتے، انہیں امریکہ میں رہنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
ٹرمپ نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں دیے گئے لاکھوں داخلے یا اجازت نامے دوبارہ جانچ پڑتال کا حصہ بنیں گے۔ ان کے بقول بائیڈن نے متعدد فیصلے “آٹو پین” کے ذریعے کیے جنہیں ٹرمپ “غیر معتبر” قرار دیتے ہیں اور اب ان میں سے بیشتر کو ختم کیے جانے کا امکان ظاہر کیا۔ ان کے مطابق وہ مہاجرین جو امریکہ کی ترقی میں حصہ نہیں ڈال رہے یا جنہیں ٹرمپ کی الفاظ میں "ملک سے محبت کرنے کی صلاحیت نہیں”، انہیں امریکہ میں مزید رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان اقدامات کو وہ محض اصلاحات نہیں بلکہ ایک مکمل پالیسی تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ صرف نئے داخلوں پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کے خیال میں “ریورس مائیگریشن” یعنی اُن افراد کی وطن واپسی ضروری ہے جو اُن کی تشریح کے مطابق غیر قانونی انداز میں ملک میں داخل ہوئے یا امریکی معاشرے میں خرابی کا باعث بنے۔ ٹرمپ نے اس پالیسی کو “قانون و نظم کی بحالی کا واحد راستہ” قرار دیا۔
ٹرمپ کی ان سخت گیر باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ مستقبل میں غیر شہریوں کو کسی قسم کی وفاقی مراعات، جیسے ہیلتھ کیئر، فلاحی رقم یا حکومتی سبسڈیز، فراہم نہیں کی جائیں گی۔ ان کے مطابق امریکی ٹیکس دہندگان پر برسوں سے پڑنے والا مالی بوجھ اب ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے امدادی پروگرام صرف امریکی شہریوں کے لیے ہی مختص ہونے چاہییں۔
ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے افغانستان سے کی جانے والی انخلا کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اسے “بدترین ایئرلفٹ” قرار دیا اور الزام لگایا کہ اس عمل میں لاکھوں افراد کو بغیر کسی مکمل جانچ پڑتال کے ملک میں داخل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کی غلطیوں کا تاوان امریکہ آج تک بھگت رہا ہے، تاہم وہ “اس نقصان کی تلافی کریں گے”۔
ادھر امریکی شہریت و امیگریشن سروسز (USCIS) کے ڈائریکٹر جوزف ایڈلو نے اعلان کیا کہ صدر نے جون میں جاری کیے گئے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت 19 ممالک سے تعلق رکھنے والے گرین کارڈ ہولڈرز کی وسیع پیمانے پر جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ اس فہرست میں افغانستان، ایران، ہیٹی، صومالیہ اور وینیزویلا جیسے ممالک شامل ہیں، البتہ پاکستان کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ اس نئی جانچ کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مستقل رہائشی، چاہے وہ کئی برسوں سے امریکہ میں رہ رہے ہوں، بھی اب نظروں میں آ سکتے ہیں۔
اس دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے اس واقعے میں ملوث افغان نژاد شخص کے بارے میں بیان جاری کیا کہ وہ کابل سے انخلا کے دوران امریکی فورسز کا معاون تھا اور اس کی امریکہ آمد “شراکت دار فورسز” پروگرام کے ذریعے ہوئی تھی۔ ریٹکلف نے اسے “افغانستان سے انخلا کی تباہ کن حکمتِ عملی” کا نتیجہ قرار دیا۔ اس واقعے کے بعد دارالحکومت میں سیکیورٹی بڑھاتے ہوئے 500 اضافی نیشنل گارڈ فوجی تعینات کیے گئے۔
USCIS نے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستیں عارضی طور پر روک دیں۔ اس وقت تقریباً دو لاکھ افغان شہری مختلف مراحل میں اپنی درخواستوں کے جائزے کے منتظر تھے، لیکن نئی سختیوں نے ان کے مستقبل کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔
ٹرمپ اپنے پیغامات میں یہ بھی کہتے دکھائی دیے کہ پچھلی انتظامیہ نے “دنیا بھر سے تقریباً 20 ملین ایسے افراد کو داخل کیا جن کا پس منظر مبہم تھا اور جو مکمل طور پر غیر تصدیق شدہ تھے”۔ ان کے مطابق موجودہ صورتِ حال ملک کے لیے شدید خطرہ بنتی جا رہی ہے اور انہیں اس کا فوری سدباب کرنا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں صرف اُن لوگوں کو رہنے کی اجازت ہونی چاہیے جو “ملک کے لیے اثاثہ” ہوں اور جو بقول ٹرمپ “امریکہ سے محبت کر سکیں”۔
یہ بیانات اور ان پر عمل درآمد کے اشارے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں امریکہ کی امیگریشن پالیسی میں ایک غیر معمولی اور تاریخی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ اس نئے رخ کے اثرات نہ صرف امریکہ میں رہنے والے لاکھوں تارکینِ وطن پر ہوں گے بلکہ دنیا کے ان تمام ممالک پر بھی پڑیں گے جہاں سے ہر سال ہزاروں خاندان بہتر مستقبل کے لیے امریکی ویزوں اور امیگریشن پروگراموں کی امید لگاتے ہیں۔
اگر ان اعلانات کو عملی شکل دی گئی تو نہ صرف گرین کارڈ ہولڈرز بلکہ پناہ گزین، ورک ویزا ہولڈرز اور دیگر قانونی امیگریشن پروگرام بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ صورت حال اس سمت اشارہ کرتی ہے کہ امریکہ اپنی امیگریشن پالیسی کو ایک ایسے دور میں لے جا رہا ہے جو سابقہ دہائیوں کی پالیسیوں سے یکسر مختلف ہوگا۔
