اقوام متحدہ کو شدید مالی بحران، عالمی انسانی امداد خطرے میں آئندہ سال صرف 23 ارب ڈالر کا کم ترین بجٹ تجویز کیااگیاہے
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کو اس وقت اپنی تاریخ کے سنگین ترین مالی بحران کا سامنا ہے، جس کے باعث دنیا بھر میں جاری انسانی امدادی سرگرمیوں کا تسلسل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ادارے کے سربراہ ٹام فلیچر نے 2025 کے لیے 23 ارب ڈالر کے امدادی بجٹ کی عالمی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر فنڈنگ میں نمایاں اضافہ نہ ہوا تو کروڑوں انسانوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رواں برس اقوام متحدہ نے 47 ارب ڈالر کا بجٹ منظور کیا تھا، مگر فنڈز کی شدید کمی کے باعث آنے والے سال کا بجٹ تقریباً آدھا کر دیا گیا ہے۔ فلیچر کے مطابق 23 ارب ڈالر کی رقم سے دنیا بھر کے 8 کروڑ 70 لاکھ افراد کو بنیادی امداد فراہم کی جا سکے گی، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اب تک اقوام متحدہ کو صرف 12 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں، جن میں سے 4 ارب ڈالر فلسطین کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بڑھتے ہوئے تنازعات، تباہ کن جنگوں اور قدرتی آفات کے باوجود عالمی طاقتوں کی امداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سوڈان دنیا کا دوسرا بڑا بحران زدہ ملک بن چکا ہے، جب کہ شام تیسرے نمبر پر ہے جہاں لاکھوں افراد بدستور امداد کے منتظر ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا اور جرمنی—جو اقوام متحدہ کے سب سے نمایاں ڈونرز میں شامل تھےنے اس سال اپنی امدادی رقوم میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے، جس کے اثرات پوری عالمی امدادی مشینری پر پڑ رہے ہیں۔ فلیچر نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ضرورتیں بڑھ چکی ہیں، لیکن فنڈز خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں، اور اس خلا کو پر نہ کیا گیا تو آئندہ سال بڑے انسانی بحران جنم لے سکتے ہیں۔
