بلغاریہ میں سیاسی ہلچل کے بعد وزیر اعظم روزن ژیلیازکوف نے اپنی کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا ہے، جس سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے BGNES کے مطابق یہ اقدام پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی چھٹی عدم اعتماد کی تحریک کے ووٹنگ کے آغاز سے قبل کیا گیا، جس سے ممکنہ سیاسی بحران کو خود روکنے کی کوشش کی گئی۔
عدم اعتماد کے ووٹ کی کارروائی مقامی وقت کے مطابق 1 بج کر 30 منٹ پر طے تھی، تاہم اپوزیشن پارٹی "There Is Such a People” کی رکن پاویلا میٹووا نے 30 منٹ کا وقفہ طلب کر لیا، جس دوران وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ حکمران جماعت GERB-SDS کے سربراہ بویکو بورسوف سمیت دیگر اہم رہنما بھی غیر حاضری اختیار کیے ہوئے تھے۔
استعفیٰ کے اعلان کے دوران ژیلیازکوف نے کہا کہ حکومت کا وجود عوامی اعتماد پر مبنی ہے اور جب عوام نے سڑکوں پر نکل کر اپنی ناراضی ظاہر کی تو اس کی سننا ان کی اولین ذمہ داری تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک بھر میں نوجوانوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد کی شرکت مظاہروں میں واضح کرتی ہے کہ عوامی ناراضگی محض پالیسیوں کی مخالفت نہیں بلکہ حکمرانی کے طریقے سے متعلق ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ان کی مخلوط حکومت نے چیلنجنگ حالات کے باوجود بلغاریہ کو یورپی سمت پر قائم رکھا اور معاشی استحکام کو یقینی بنایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اگلے سال کا بجٹ منظور کر لیا ہے، جو عوام کی فلاح اور قوتِ خرید کو بڑھانے پر مرکوز ہے، تاہم اپوزیشن اس مؤقف سے متفق نہیں تھی۔
اب نگراں حکومت کی تشکیل اور 2026 کے انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ملک کے سیاسی مستقبل کے اہم فیصلے متوقع ہیں، جو بلغاریہ کی اندرونی سیاسی کشمکش اور عوامی مطالبات کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔
