برطانیہ نے یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مسلح افواج کے برطانوی وزیر جیمز الکارنز نے تشویش ناک انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور روس کی جانب سے براعظم یورپ پر حملے کا حقیقی خطرہ بڑھ رہا ہے۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الکارنز نے واضح کیا کہ برطانیہ اب اپنے دفاع کے لیے امریکا پر مکمل انحصار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر بدلتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کے باعث برطانیہ نے ممکنہ جنگ کی تیاری اور دفاعی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر کا کہنا تھا کہ امریکا اپنی توجہ مشرق وسطیٰ اور بحرالہند و الکاہل کے بڑھتے ہوئے بحرانوں کی جانب منتقل کر سکتا ہے، جس کے بعد یورپ کو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں خود اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے نیٹو رکن ممالک کو مزید دفاعی اخراجات بڑھانے کی سخت ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا
افواج حملوں کا جواب دیتی ہیں، مگر جنگ جیتنے کے لیے معاشرے، صنعتیں اور معیشتیں تیار ہونا ضروری ہے۔
دوسری جانب نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روس یورپ کے لیے اگلا بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب کو پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی سطح کی تیاری کرنا ہوگی، ورنہ نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق برطانوی وزارتِ دفاع اور افواج کو نشانہ بنانے والی جاسوسی اور سائبر ہیکنگ کی کوششوں میں 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے روس، چین، ایران اور شمالی کوریا کے شامل ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جس نے لندن میں خطرے کی گھنٹیاں مزید تیز کر دی ہیں۔
اسی صورتحال کے پیشِ نظر برطانیہ نے ایک نئے ڈیفنس کاؤنٹر انٹیلیجنس یونٹ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، جس میں برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اورنیوزی لینڈ مشترکہ طور پر شامل ہوں گے۔ اس یونٹ کا مقصد حساس معلومات کا باہمی تبادلہ، مشترکہ انٹیلیجنس آپریشنز اور دشمن ممالک کے ہائبرڈ حملوں کے مقابل مؤثر حکمتِ عملی تشکیل دینا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ برطانوی وزیراعظم پہلے ہی دفاع کے لیے جی ڈی پی کا 3.5 فیصد مختص کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیوکلئیر وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے جدید F-35A جنگی طیاروں کی خریداری میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، جو مستقبل میں برطانیہ کی اسٹریٹیجک صلاحیتوں میں اہم اضافہ کریں گے۔
یورپ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور روس کی ممکنہ جارحیت نے خطے میں نئی سفارتی اور عسکری صف بندیاں شروع کر دی ہیں، جبکہ برطانیہ اپنی سلامتی کے لیے واضح طور پر فیصلہ کن راستہ اختیار کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔
