امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روزامیگریشن پالیسی کے حوالے سے ایک انتہائی اہم اور متنازع فیصلہ کرتے ہوئے ڈائیورسٹی ویزا (گرین کارڈ لاٹری) پروگرام کو معطل کر دیا، یہ وہی پروگرام ہے جس کے تحت براؤن یونیورسٹی اور ایم آئی ٹی میں فائرنگ کے مشتبہ ملزم کو امریکہ میں داخلے اور مستقل رہائش کی اجازت ملی تھی۔
امریکی محکمہ داخلی سلامتی کی سیکریٹری کرسٹی نیوم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے بیان میں تصدیق کی کہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر امریکی شہریت و مہاجرت کے ادارے (USCIS) کو فوری طور پر یہ پروگرام روکنے کا حکم دے دیا گیا ہے، جبکہ پرتگالی شہری کلاڈیو نیویس ویلنٹ کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس وحشیانہ شخص کو ہمارے ملک میں داخل ہونے کی اجازت کبھی نہیں ملنی چاہیے تھی
۔ اڑتالیس سالہ نیویس ویلنٹ پر الزام ہے کہ اس نے براؤن یونیورسٹی کے احاطے میں فائرنگ کر کے ایک ایم آئی ٹی پروفیسر اور دو طلبہ کو ہلاک جبکہ نو افراد کو زخمی کر دیا تھا، بعد ازاں وہ خود گولی لگنے سے مردہ پایا گیا، جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ خودکشی کا واقعہ ہو سکتا ہے۔
امریکی اٹارنی برائے میساچوسٹس کے مطابق نیویس ویلنٹ نے 2017 میں قانونی مستقل رہائش حاصل کی تھی، جو کانگریس کے منظور کردہ ڈائیورسٹی ویزا لاٹری پروگرام کے تحت دی گئی، یہ پروگرام ہر سال دنیا بھر سے ایسے ممالک کے شہریوں کو 50 ہزار تک گرین کارڈ فراہم کرتا ہے جن کی امریکہ میں نمائندگی کم ہوتی ہے، جن میں بڑی تعداد افریقی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
2025 کی ویزا لاٹری کے لیے تقریباً دو کروڑ افراد نے درخواست دی تھی جن میں سے ایک لاکھ 31 ہزار سے زائد افراد (اہلِ خانہ سمیت) منتخب ہوئے، تاہم لاٹری جیتنے کے باوجود امیدواروں کو امریکی قونصل خانوں میں سخت سیکیورٹی جانچ، بیک گراؤنڈ ویریفیکیشن اور انٹرویوز کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔
مبصرین کے مطابق اس پروگرام کی معطلی پر قانونی اور آئینی چیلنجز ناگزیر ہیں کیونکہ یہ اسکیم براہِ راست کانگریس کے قانون کے تحت چل رہی ہے، تاہم صدر ٹرمپ طویل عرصے سے اس لاٹری کے ناقد رہے ہیں اور فائرنگ کے حالیہ واقعے کو امیگریشن قوانین مزید سخت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت نہ صرف غیر قانونی بلکہ قانونی امیگریشن کے راستوں کو بھی محدود کیا جا رہا ہے، جن میں ڈائیورسٹی ویزا لاٹری اور امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دینے کا آئینی حق شامل ہے، جس پر سپریم کورٹ پہلے ہی سماعت پر آمادگی ظاہر کر چکی ہے، یوں یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں امریکہ کے امیگریشن نظام، عدالتی منظرنامے اور عالمی ردعمل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
