روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نےگزشتہ روز ایک بارپھر ایک اہم اور بین الاقوامی سطح پر قابلِ توجہ بیان میں کہا کہ روس یوکرین تنازع کے پُرامن اور مستحکم خاتمے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ پیوٹن نے واضح کیا کہ موجودہ بحران کی جڑ میں جو بنیادی وجوہات ہیں، ان کو حل کیے بغیر کوئی دیرپا امن ممکن نہیں، اور یہی اصولی بنیاد ہے جس پر اس تنازع کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ روس نے پہلے ہی یوکرین کے لیے تجویز کردہ مصالحانہ اقدامات پر اتفاق کر لیا ہے، اور اب عمل درآمد کا دارومدار مغرب اور یوکرین کے رویے پر ہے۔
صدر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو بھی سراہا اور کہا کہ ٹرمپ واقعی یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری اور متعلقہ فریقین کو اس معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے تعاون کرنا ہوگا تاکہ دیرینہ بحران کا پُرامن حل ممکن ہو سکے۔ پیوٹن کے مطابق، یوکرین سے متعلق مصالحانہ اقدامات پر اتفاق ہونے کے بعد اب یہ عملی اقدامات اور مذاکرات کا مرحلہ مغرب اور یوکرین کے کورٹ میں منتقل ہو چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، پیوٹن کا یہ بیان بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت اشارہ ہے کہ روس تنازع کے حل میں سنجیدگی سے مذاکرات کے لیے کھلا ہے۔ اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغربی ممالک اور یوکرین تعمیری رویہ اختیار کریں تو جنگ زدہ یورپی علاقے میں سیاسی استحکام اور عالمی سلامتی میں بہتری آ سکتی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیانات مذاکرات کے نئے دور کی شروعات اور امن کی بحالی کے امکانات کو بڑھانے کا پیغام ہیں، جو عالمی سطح پر خطے کی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
صدر پیوٹن کے اشارے اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ روس مذاکرات کے ذریعے تنازع کو کم کرنے اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے تیار ہے، اور اگر تمام فریقین مثبت اور سنجیدہ کردار ادا کریں تو یوکرین تنازع کا پُرامن خاتمہ ممکن ہے، جس سے عالمی سیاست میں نیا موڑ آنے کا امکان ہے۔
