اسرائیل نے غزہ پر اپنی فضائی بمباری میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ قطر میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے بتایا کہ تازہ حملوں میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے، جن میں سے 11 افراد، بشمول 7 بچے، غزہ سٹی میں الغولہ خاندان کے گھر پر کیے گئے حملے میں مارے گئے۔
شجاعیہ کے علاقے سے موصولہ تصاویر میں رہائشیوں کو تباہ شدہ ملبے کو کھنگالتے ہوئے اور بچوں سمیت لاشوں کو سفید چادروں میں لپیٹے ہوئے دیکھا گیا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے تصدیق کی کہ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر میں مذاکرات جاری ہیں۔
خاتون سپاہی لیری الباغ کے خاندان سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ ایک اسرائیلی وفد مذاکرات کے لیے قطر روانہ ہوا ہے۔
وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے خصوصی ہدایات دی ہیں۔ حماس کی جانب سے حالیہ ویڈیو جاری ہونے کے بعد دباؤ میں مزید اضافہ ہوا، جس میں لیری الباغ نے اپنی رہائی کے لیے اسرائیلی حکومت سے اپیل کی۔
ان کے خاندان نے نیتن یاہو سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں فوری اور فیصلہ کن اقدام اٹھائیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، غزہ میں اب بھی 96 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 34 کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم نے اس بحران کو سنگین قرار دیا ہے اور یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ مذاکرات کا مقصد مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کی واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ قطر، مصر، اور امریکہ کے ثالث مہینوں سے اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
دونوں فریقین پر نئے شرائط عائد کرنے کے الزامات ہیں، جو مذاکرات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ہفتے کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کانگریس کو اسرائیل کے لیے 8 ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے منصوبے سے آگاہ کیا۔
یہ معاہدہ اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ قطر نے امریکی انتخابات کے بعد مذاکرات میں نئی رفتار کا عندیہ دیا تھا، لیکن دونوں فریقین کے درمیان عدم اتفاق برقرار ہے۔
اس دوران، یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں، جسے وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی قرار دیتے ہیں۔
غزہ میں انسانی بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حماس کے زیر انتظام صحت کے حکام نے پچھلے 48 گھنٹوں میں 136 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
خان یونس میں ایک اسرائیلی حملے میں امدادی قافلے کے ساتھ موجود پانچ سیکیورٹی اہلکار مارے گئے، تاہم اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ افراد دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
دیگر حملوں میں مزید 10 افراد ہلاک ہوئے۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے طبی عملے نے ایک ساتھی کی موت پر دکھ کا اظہار کیا، جو اسرائیلی حملے میں مارا گیا تھا۔
غزہ کے حکام کے مطابق، اس تنازع کے آغاز سے اب تک 45,717 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے الغولہ خاندان کے گھر پر حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دو منزلہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی افراد ابھی بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
مقامی رہائشی احمد موسیٰ نے کہا، ایک زوردار دھماکے نے ہمیں جگا دیا، سب کچھ ہل رہا تھا۔ یہ گھر بچوں اور خواتین کا تھا، یہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو خطرہ بن سکتا۔
یہ تنازع اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد شروع ہوا، جس میں 1,208 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کو مستند قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں کو بے مثال قرار دیا ہے۔