اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی منظوری کی سفارش کی ہے، جس کے بعد وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے تصدیق کی کہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔
اس معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے جاری تنازع کو روکنا اور حماس کے زیر حراست درجنوں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔
قطر اور امریکہ نے اس ہفتے کے آغاز میں جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن تاخیر ہوئی کیونکہ نیتن یاہو نے حماس پر آخری لمحے میں مسائل پیدا کرنے کا الزام لگایا۔
اگرچہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی ہے، مکمل کابینہ کے اس کی منظوری کی توقع ہے، اور جنگ بندی اتوار سے نافذ ہو سکتی ہے۔
یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے شروع ہوئی، جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا۔ اسرائیل نے جواباً حملے کیے، جن میں غزہ کے صحت حکام کے مطابق 46,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ تنازع غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی، مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام اور عالمی مظاہروں کا سبب بنا ہے۔
معاہدے کے تحت 33 یرغمالیوں کو چھ ہفتوں میں رہا کیا جائے گا، بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کو آزاد کیا جائے گا۔
اسرائیلی افواج کچھ علاقوں سے نکل جائیں گی، جس سے بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔
انسانی امداد بھی بڑھا دی جائے گی۔ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں باقی یرغمالیوں، بشمول فوجیوں، کی رہائی پر بات چیت ہوگی، لیکن یہ مرحلہ زیادہ مشکل ہوگا۔
حماس اصرار کرتی ہے کہ مزید رہائی کے لیے مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کا انخلا ضروری ہے، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک لڑائی جاری رکھے گا۔
مذاکرات کے دوران جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی اور تعمیر نو پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
مصری اور حماس حکام نے تصدیق کی کہ اسرائیلی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کی فہرست پر اختلافات حل ہو چکے ہیں۔
غزہ اور مصر کے درمیان رفح بارڈر کراسنگ کو دوبارہ کھولنے پر بھی بات چیت جاری ہے۔
اسرائیل میں اس معاہدے کو سخت گیر سیاستدانوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے جنگ بندی کی منظوری پر استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے، جو نیتن یاہو کی حکومت کو کمزور کر سکتا ہے لیکن معاہدے کو نہیں روک سکے گا۔