غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی بالآخر تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد نافذ ہو گئی ہے۔یہ معاہدہ 15 ماہ طویل جنگ کے دوران ایک نیا موڑ ثابت ہوا، جس نے ہزاروں زندگیاں متاثر کیں۔
تاخیر کے دوران اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 19 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
جنگ بندی اس وقت نافذ ہوئی جب اسرائیل نے ان تین یرغمالیوں کے ناموں کی تصدیق کی جنہیں پہلے مرحلے میں رہا کیا جانا تھا۔
ان یرغمالیوں میں رومی گونین (24)، ایمیلی دماری (28)، اور دورون شٹنبار خیر (31) شامل ہیں۔ حماس نے یہ فہرست قطری ثالثوں کے ذریعے اسرائیلی حکام کو فراہم کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جنگ بندی کا آغاز تب ہی ہوگا جب یرغمالیوں کی فہرست موصول ہوگی۔
ریڈ کراس کے مطابق، تینوں یرغمالی خواتین صحت مند ہیں اور انہیں حماس کی حراست سے آزاد کروا کر ان کے اہلخانہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
حماس نے بھی معاہدے پر اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیل پہلے مرحلے میں 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں 69 خواتین اور 21 نابالغ لڑکے شامل ہیں۔
ان قیدیوں کو بسوں کے ذریعے مغربی کنارے منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں ان کے اہلخانہ اور حمایتی ان کا استقبال کریں گے۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے مناظر جذباتی اور پرجوش تھے، جنہیں لوگوں نے خوشی کے نعروں کے ساتھ سراہا۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں انسانی امداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلے دن 600 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان، بشمول خوراک، ادویات، اور ایندھن، غزہ بھیجا گیا۔
عالمی خوراک پروگرام (WFP) کے مطابق، امدادی سامان خاص طور پر شمالی غزہ کے علاقوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے جہاں قحط کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد مختلف مناظر دیکھنے کو ملے۔ کئی لوگ اپنے برباد گھروں کو واپس لوٹتے ہوئے خوشی منا رہے تھے، جبکہ کچھ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دینے گئے۔
خان یونس میں حماس کے مسلح جنگجو سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے دیکھے گئے، جہاں لوگوں نے ان کا نعرے لگا کر استقبال کیا۔
ایک غزہ شہر کے رہائشی احمد ابو ایہم نے بتایا:
"یہ خوشی کا لمحہ ضرور ہے، لیکن ہمارے زخم ابھی بھی تازہ ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے دکھ بانٹنے کی ضرورت ہے۔”
اگرچہ یہ معاہدہ ایک اہم قدم ہے، لیکن مستقبل کے چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات دو ہفتوں میں شروع ہوں گے، جن میں یرغمالیوں کے مکمل تبادلے اور غزہ کی تعمیر نو جیسے مسائل شامل ہوں گے۔
اسرائیلی حکومت کے اندر بھی اختلافات نمایاں ہیں۔ سخت گیر وزیر، اتمار بن گویر، نے معاہدے پر احتجاجاً کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، جبکہ دیگر وزراء نے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے اس معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے پر زور دیا۔ ٹرمپ کے قومی سلامتی مشیر مائیک والٹز نے کہا:
"اگر حماس اس معاہدے سے پیچھے ہٹتی ہے تو امریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرے گا۔”
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 47,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ کی تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے، جبکہ اسرائیل کے 400 فوجی بھی مارے گئے۔ غزہ کے شمالی علاقوں میں تباہی کا منظر انتہائی دردناک ہے، جہاں ہر طرف ملبہ اور بربادی نظر آتی ہے۔
یہ جنگ بندی اگرچہ ایک عارضی سکون فراہم کرتی ہے، لیکن مستقل امن کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
فلسطینیوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کے عمل کو عالمی برادری کی حمایت درکار ہے، جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اعتماد سازی کی اشد ضرورت ہے۔