حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ ان کا گروپ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کے ساتھ تمام معاملات پر سمجھوتے کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
74 سالہ ابو مرزوق، جو غزہ میں پیدا ہوئے اور ایک وقت میں ورجینیا میں رہائش پذیر تھے، اس وقت قطر میں مقیم ہیں۔
ان کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے آغاز کے بعد سامنے آیا، جو ٹرمپ کے صدر بننے کے ساتھ ہی ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس ٹرمپ انتظامیہ کے کسی نمائندے کو غزہ آنے کا خیرمقدم کرے گی۔
ان کے مطابق، نمائندہ یہاں آ کر لوگوں کے حالات دیکھ سکتا ہے، ان کے جذبات اور خواہشات کو سمجھ سکتا ہے، اور اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں سب فریقین کے مفاد میں ہوں، نہ کہ صرف ایک فریق کے۔
ابو مرزوق نے صدر ٹرمپ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو ممکن بنانے پر بھی سراہا۔
انہوں نے کہا، اگر ٹرمپ نے جنگ ختم کرنے پر زور نہ دیا ہوتا اور ایک مضبوط نمائندہ نہ بھیجا ہوتا، تو یہ معاہدہ ممکن نہ ہوتا۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا غزہ میں موجود حماس کے تمام دھڑے ابو مرزوق کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے 1997 سے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔