ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ 2 سالہ حبیبہ الاسکری کی حالت نازک ہو چکی ہے اور وہ صرف چند دنوں تک زندہ رہ سکتی ہیں۔
ان کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر گینگرین (سڑن) آنا شروع ہو چکا ہے، اور اس حالت میں صرف غزہ سے فوری طور پر باہر نکل کر علاج کرنے سے ہی ان کی زندگی بچ سکتی ہے۔
حبیبہ کو ایک نایاب جینیاتی بیماری ہے جس کا نام پروٹین سی کی کمی ہے، جس کی وجہ سے خون جمنے لگتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بیماری قابل علاج ہے، لیکن غزہ میں صحت کی سہولتیں اس کا علاج فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ یہاں کی طبی سہولتیں اور وسائل اسرائیل کے برسوں کے جنگی حملوں اور بمباری کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔
اس کے نتیجے میں غزہ کے بیشتر ہسپتالوں میں علاج کے مناسب وسائل نہیں ہیں اور مریضوں کو فوری طور پر علاج نہیں مل پا رہا۔
اس مہینے کے شروع میں، بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے اسرائیلی حکام سے اجازت حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی تاکہ حبیبہ کو غزہ سے علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت مل سکے۔
کئی پیچیدہ مراحل کے بعد حبیبہ کو غزہ چھوڑنے کی رسمی اجازت مل گئی تھی، اور اردن نے اسے عمان لے جانے کی تیاری مکمل کر لی تھی۔
اردنی فوج نے حبیبہ کو نکالنے کے لیے بدھ کے دن کے لیے منصوبہ بنایا تھا، مگر آخری لمحے میں اسرائیل نے اس مشن کو روک دیا، جس کے نتیجے میں حبیبہ کے خاندان اور ڈاکٹروں کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔
فی الحال حبیبہ غزہ میں ہی موجود ہیں، اور ان کی حالت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔
حبیبہ کی والدہ، رانا، نے سی این این سے بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو کر کہا، حبیبہ کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ کیوں نہیں باہر جا کر علاج کروا سکتی؟ اس نے کیا جرم کیا ہے؟
ان کا دل ٹوٹ چکا تھا کیونکہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایک معصوم بچی کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔
اسرائیل کی جانب سے اجازت دینے والے ادارے COGAT نے سی این این کے بار بار پوچھنے پر کوئی جواب نہیں دیا، جس سے حبیبہ کے خاندان اور دنیا بھر میں موجود امدادی کارکنوں کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا۔
حبیبہ غزہ میں کم از کم 2,500 بچوں میں سے ایک ہے جنہیں فوری طور پر طبی علاج کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ کے مطابق۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے تحت اسرائیلی حکام کو غزہ سے لوگوں کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت بڑھانی چاہیے تھی، لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے کوئی طبی انخلا نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ نے بتایا کہ آخری بار 16 جنوری کو صرف 12 مریضوں کو یورپ روانہ کیا گیا تھا، اور اس کے بعد سے غزہ میں کوئی طبی انخلا نہیں ہو سکا۔
اس وقت تقریباً 12,000 افراد غزہ میں طبی انخلا کے منتظر ہیں، جنہیں فوری طور پر علاج کی ضرورت ہے۔
COGAT نے حالیہ مہینوں میں غزہ سے 24 طبی انخلاء کی اجازت دی تھی، مگر حبیبہ کے معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
اس کے علاوہ غزہ میں موجود ڈاکٹروں کے پاس اس کی حالت کا صحیح تشخیص کرنے کے لیے تمام وسائل موجود نہیں ہیں۔
ڈاکٹر محمد کزییز، جو ایک امریکی پدیٹریشین ہیں اور غزہ میں حبیبہ کا علاج کر چکے ہیں، نے کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ شاید اس کا وقت گزر چکا ہو اور اس کا علاج بہت دیر ہو چکا ہو۔
ان کا دل ٹوٹ گیا ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ اگر حبیبہ کو صحیح علاج ملتا، تو اس کی حالت کو وقت پر ٹھیک کیا جا سکتا تھا۔
ڈاکٹر کزییز نے کہا کہ جب وہ غزہ سے واپس جا رہے تھے، ان کا دل چاہ رہا تھا کہ حبیبہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر سرحد پار لے جا کر علاج کروا سکیں، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ڈاکٹر کزییز نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حبیبہ کا انخلا روکا گیا، تو یہ اس کی موت کا پروانہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا، یہ ایک جان بوجھ کر کوشش لگتی ہے کہ اس بچے کو مار ڈالا جائے۔
اس کے علاج کے لیے فوری طور پر اہم دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ اس بچے کا علاج اس کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔
اگر اسے علاج کی سہولت فراہم نہ کی گئی تو اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔
غزہ میں موجود ہسپتالوں کے وسائل کی کمی اور صحت کے نظام کی حالت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس بچے کو فوری طور پر علاج کی ضرورت ہے۔
حبیبہ کی حالت اس وقت انتہائی نازک ہے، اور ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ اور دائیں بازو کی حالت کو تشویش ناک قرار دیا ہے کیونکہ یہ سیاہ ہو چکے ہیں اور گینگرین کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی دائیں ٹانگ کو کاٹنا پڑے گا اور اس کے بازو بھی بچانے کے لیے شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔
اگر فوری طور پر علاج نہ دیا گیا تو گینگرین خون میں سرایت کر کے سیپسس کی وجہ بن سکتی ہے جو اعضا کی ناکامی اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک اردنی عہدیدار نے سی این این کو بتایا کہ اردن ابھی بھی حبیبہ کے انخلا کے لیے اسرائیلی حکام سے بات کر رہا ہے اور فوری طور پر اسے منتقل کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم اسرائیلی حکام کی جانب سے مسلسل تاخیر نے حبیبہ کی زندگی کے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر کزییز نے مزید کہا، میرے دل میں خوف ہے کہ اس کا علاج اگر وقت پر نہ کیا گیا تو اس کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔
حبیبہ کے خاندان کی حالت اس وقت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔
ان کی والدہ رانا نے بار بار کہا ہے کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اس معصوم بچی کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔
اس کی حالت میں جتنی دیر کی جائے گی، اس کے زندہ رہنے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے دل میں امید ہے کہ حبیبہ کو جلد ہی علاج کے لیے باہر لے جایا جائے گا، مگر اس امید کا کم ہونا ہر گزرے لمحے کے ساتھ اور بڑھ رہا ہے۔
حبیبہ کے کیس میں یہ بات واضح ہے کہ غزہ میں موجود جنگ زدہ حالات اور صحت کے نظام کی کمزوری کے باعث ہزاروں افراد کو علاج کی سہولتیں نہیں مل پا رہیں۔
اور ان میں معصوم بچے بھی شامل ہیں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
حبیبہ کا کیس اس بات کا مظہر ہے کہ عالمی برادری کو فوراً مداخلت کرنی چاہیے اور غزہ سے طبی انخلاء کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔
تاکہ اس جیسے کیسز کو فوری طور پر حل کیا جا سکے اور بے گناہ زندگیوں کو بچایا جا سکے۔
حبیبہ کا معاملہ عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی زندگی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کے علاج کے لیے عالمی برادری کو فوری طور پر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کو اس سلسلے میں مزید تاخیر نہ کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے تاکہ اس معصوم بچی کی جان بچائی جا سکے۔