ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا، جس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر اس علاقے کو امریکی کنٹرول میں دینے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
استنبول ایئرپورٹ پر ملیشیا روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں اردگان نے کہا کہ کوئی طاقت غزہ کے عوام کو ان کے ہزاروں سال پرانے وطن سے بے دخل نہیں کر سکتی۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا، غزہ، مغربی کنارہ، اور مشرقی یروشلم فلسطینیوں کی ملکیت ہیں۔
ایردوان نے ٹرمپ کے منصوبے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترکی کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہ متنازعہ تجویز ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پیش کی، جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی، خاص طور پر مسلم اور عرب دنیا میں غم و غصہ پایا گیا۔
نیتن یاہو نے اس منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے اسے غزہ کے مسئلے کا پہلا اچھا حل قرار دیا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی انتظامیہ جنگ زدہ علاقے سے نہ پھٹنے والے بم اور ملبہ ہٹا کر اسے ایک معاشی مرکز میں بدل دے گی۔
تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ وہاں بسنے والے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو کس طرح نکالیں گے۔
ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے بھی اس تجویز کو تاریخی حقائق سے لاعلمی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
فلسطینی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی ناقابل قبول ہے۔
ایردوان نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا، صیہونی قیادت کے دباؤ میں دی جانے والی یہ تجاویز ہمارے نقطۂ نظر سے قابلِ غور نہیں ہیں۔
ٹرمپ نے کہا تھا، امریکہ غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالے گا اور ہم وہاں ایک نیا منصوبہ شروع کریں گے۔
ہم اس کے مالک ہوں گے۔ ان کے اس بیان پر دنیا بھر میں شدید ردعمل آیا، جس سے مسلم اور عرب دنیا میں شدید غصہ پیدا ہوا۔