غزہ میں جاری جنگ بندی جو پچھلے پانچ ہفتوں سے برقرار تھی، اب خطرے میں پڑ چکی ہے، اور اسرائیل و حماس کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھ رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اسرائیل حماس کے خلاف شدید جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل نے 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی روک دی، حالانکہ اس سے ایک دن پہلے ہی حماس نے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کیا تھا۔
اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی روکنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرتے وقت ذلت آمیز تقاریب منعقد کیں، جہاں انہیں مسلح نقاب پوش جنگجوؤں کے درمیان دکھایا گیا۔
ان تقاریب کے دوران یرغمالیوں سے زبردستی بیانات دلوائے گئے، جس پر اسرائیل نے سخت ردعمل دیا۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی، جو قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے میں سہولت فراہم کرتی ہے، نے تمام فریقین سے اپیل کی ہے کہ یہ تبادلے عزت و احترام کے ساتھ اور نجی طور پر کیے جائیں۔
دوسری جانب، حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم نے اسرائیل کے اس فیصلے کو خطرناک قرار دیا اور کہا کہ یہ قدم پورے معاہدے کو تباہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے ثالثوں، خاص طور پر امریکہ، سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ معاہدے پر عمل کرے اور فلسطینی قیدیوں کو فوراً رہا کرے۔
یہ جنگ بندی 19 جنوری 2025 کو شروع ہوئی تھی اور اب تک برقرار ہے، اگرچہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا حتمی مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا اور تمام یرغمالیوں کی بازیابی ہے۔
اس وقت 62 یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 35 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔
نیتن یاہو نے زور دیا کہ یہ مقاصد یا تو مذاکرات کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے یا پھر جنگی کارروائیوں کے ذریعے۔
جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ مقبوضہ مغربی کنارے تک پھیل چکی ہے۔
اسرائیل نے وہاں بھی اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اتوار کے روز، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ وہ جنین میں ایک ٹینک ڈویژن تعینات کر رہی ہے۔
یہ مغربی کنارے میں 20 سالوں میں اپنی نوعیت کی پہلی تعیناتی ہے، اور اس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کاروں کو ختم کرنا بتایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں جو علاقے خالی کرائے جا رہے ہیں، ان میں فوجی موجودگی کم از کم ایک سال تک برقرار رہے گی تاکہ فلسطینی شہری وہاں واپس نہ جا سکیں اور دوبارہ مزاحمت منظم نہ کر سکیں۔
اقوام متحدہ نے ان فوجی کارروائیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً 40,000 فلسطینیوں کو جنین اور دیگر مہاجر کیمپوں سے زبردستی بے دخل کر دیا گیا ہے۔
فلسطینی عوام کے لیے یہ صورتحال مزید پریشانی کا باعث بن رہی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی غزہ میں جاری جنگ کے سبب بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
دوسری جانب، امریکہ بھی سفارتی سطح پر اس تنازع کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
امریکی صدر کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف جلد ہی خطے کا دورہ کریں گے تاکہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع پر بات چیت کر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔
تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازع تجویز پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے فلسطینی باشندوں کو کسی اور جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس تجویز کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیونکہ یہ فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے مترادف سمجھی جا رہی ہے۔
فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ شدید بے چینی کا شکار ہیں، کیونکہ وہ اپنے پیاروں کی رہائی کے منتظر ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی معطل کرنے کے فیصلے کے بعد ان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری طرف، حال ہی میں رہا کیے گئے چھ اسرائیلی یرغمالیوں میں ہشام السید اور آورہ منگستو بھی شامل تھے، جو تقریباً ایک دہائی سے حماس کی قید میں تھے۔
یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی کا معاملہ بھی تنازع کا شکار بن گیا ہے۔ ایک حالیہ تبادلے میں اسرائیلی یرغمالی شیری بیبس کی باقیات شامل تھیں، لیکن ابتدائی طور پر اس کی شناخت میں غلطی ہوئی۔
بعد میں حماس نے تسلیم کیا کہ لاشوں کی غلطی ہوئی ہے اور اس کی باقیات کو اسرائیل کے حوالے کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے غزہ میں لاشوں کو عوامی طور پر دکھانے کی مذمت کی ہے، جہاں تابوتوں کو اسٹیج پر رکھا گیا اور ان پر نعروں اور تصاویر کے ساتھ پیش کیا گیا۔
جیسے جیسے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے قریب پہنچ رہی ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ دو مشکل فیصلوں میں پھنسے ہوئے ہیں یا تو وہ جنگ دوبارہ شروع کریں گے، یا پھر انہیں اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو حکومت کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
حالات انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں، اور اس وقت تمام نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا جنگ بندی میں مزید توسیع ہو سکے گی یا پھر خطہ ایک اور خونریز جنگ کی طرف بڑھ جائے گا۔