شام کی نئی حکومت نے بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد تین ماہ کی عبوری مدت کے دوران اہم تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی ترجمان عبیدہ ارناؤٹ نے بتایا ہے کہ اس دوران ملک کے آئین اور پارلیمنٹ کو عارضی طور پر معطل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کا بنیادی مقصد ریاستی اداروں کا تحفظ اور ملک کے قانونی ڈھانچے کو محفوظ بنانا ہے۔
ایک عدالتی اور انسانی حقوق کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو 2012 کے آئین کا جائزہ لے گی اور اس میں ترامیم تجویز کرے گی۔ موجودہ آئین میں اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ ارناؤٹ نے ریاستی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر،جو اب نئے عسکری حکام کے قبضے میں ہے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا "ہم قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور ان تمام افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی جنہوں نے شامی عوام کے خلاف جرائم کیے ہیں۔”
ارناؤٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ جلد ہی اسد کے سابق وزراء اور نجات حکومت کے وزراء کے درمیان ایک اجلاس ہوگا تاکہ اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل کیا جا سکے۔
ارناؤٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نئی حکومت شام کی مذہبی اور ثقافتی تنوع کا احترام کرے گی اور اس دوران شخصی آزادیوں کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے قانونی اصلاحات اور عبوری دور میں اہلِ سنت اکثریتی عوام کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔
شام کئی دہائیوں تک اسد حکومت کے تحت ایک آمرانہ طرزِ حکمرانی کا شکار رہا۔ الاسد، جو شیعہ اسلام کے علوی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، انھاں نے اپنے آپ کو اقلیتوں کا محافظ ظاہر کرنے کی کوشش کی، حالانکہ شام ایک سنی اکثریتی ملک ہے۔ تاہم، عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نئی حکمرانی کا تعین کریں گے اور احتساب کو یقینی بنائیں گے۔