تل ابیب/واشنگٹن:امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کےمشرق وسطیٰ کےحالیہ دورے اوراچانک پالیسی فیصلوں نے اسرائیل میں بے چینی کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ جہاں ایک طرف اسرائیلی عہدیدارخود کو پُر اعتماد ظاہر کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب سیاسی و سفارتی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا واشنگٹن اب تل ابیب کی پہلی ترجیح نہیں رہی؟
غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے بیچ جب ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی خبر آئی، تو اسرائیلی وزراء کے چہروں پر خوشی کم اور حیرت زیادہ تھی۔ حیرت اس لیے کہ یہ رہائی براہ راست امریکہ اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ تھی، جس میں اسرائیل کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی قیادت سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ بھی واپس لے چکی ہے ایک ایسا مطالبہ جو کبھی ابراہم معاہدوں کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔ سعودی عرب، جو فلسطینیوں کے ساتھ تصفیہ طلب مسائل پر زور دیتا آیا ہے، اب کھل کر اپنی شرائط پر ڈٹا نظر آ رہا ہے۔
صدر ٹرمپ، جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچنے ہوئےہیں، صدرٹرمپ نے پچھلے ہفتے ایک اور چونکا دینے والا اعلان کیا یمن میں حوثیوں پر امریکی بمباری بند کرنے کا فیصلہ۔ اور صرف چند دن بعد، ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے مرکزی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا ڈالا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا خطے کے لیے ایک خاموش لیکن واضح پیغام؟
اسرائیلی میڈیا، خاص طور پر "وائی نیٹ”، اب کھلے عام یہ لکھ رہا ہے کہ اسرائیل اب امریکہ کی پہلی ترجیح نہیں رہا۔ معروف تجزیہ کار ایتامار آئچنر کے مطابق، ٹرمپ اب علاقائی توازن کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں اور اسرائیل کو ایک عام اتحادی جیسا ٹریٹ کر رہے ہیں، نہ کہ ایک ناقابلِ تسخیر حلیف کی طرح۔
امریکہ کے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات اور حوثیوں کے معاملے پر مشورہ کیے بغیر کیے گئے فیصلے، اسرائیلی حکومت کے لیے باعثِ اضطراب بن چکے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کو خدشہ ہے کہ ان پالیسیوں سے ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی آپشنز کمزور پڑ سکتے ہیں، اور تہران مزید جری ہو سکتا ہے۔
ادھر، جب یہ خبریں آئیں کہ امریکہ نے سعودی عرب پر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی شرط واپس لے لی ہے، تو اسرائیلی حلقوں میں یہ تاثر پختہ ہونے لگا کہ واشنگٹن اب خالصتاً اپنے مفادات کے تحت فیصلے کر رہا ہےچاہے اس سے تل ابیب کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
پیر کے روز جب اسرائیلی عوام کو علم ہوا کہ ایڈن الیگزینڈر کی رہائی میں ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں، تو عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ تل ابیب کے بزرگ شہری جیک گٹلیب کا کہنا تھا:
اب کوئی قیادت باقی نہیں رہی، یہ طے ہے کہ یہ سب نیتن یاہو کے پیٹھ پیچھے ہوا۔ ہر ملک اب صرف اپنے مفاد کی سوچ رہا ہے، اسرائیل کے مفاد کی نہیں۔
یہی نہیں، خود نیتن یاہو کے قریبی حلقوں میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا وزیر اعظم کے پاس اب بھی امریکہ پر وہی اثر و رسوخ باقی ہے یا وہ صرف امریکی پالیسیوں کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ فیصلے اسرائیل کے لیے کئی پہلوؤں سے تشویشناک ہیں۔ واشنگٹن اور تل ابیب کی پالیسی لائنز اب الگ الگ ہو چکی ہیں، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو نہ صرف اسرائیل کا علاقائی اثر کمزور پڑے گا بلکہ نیتن یاہو کی داخلی سیاسی ساکھ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔