ریاض : بین الاقوامی سیاست کے افق پر ایک غیر متوقع موڑ آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے اعلان کے صرف ایک روز بعد، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے اہم اجلاس سے قبل شامی صدر احمد الشرع سے براہِ راست ملاقات کر کے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔
اس حیران کن پیش رفت پر عالمی مبصرین بھی دنگ رہ گئے، کیونکہ احمد الشرع کو امریکا ماضی میں القاعدہ سے روابط کی بنیاد پر ’دہشت گرد‘ قرار دے چکا ہے۔ لیکن واشنگٹن پوسٹ کی تازہ پول رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ کی انتظامیہ کے کچھ حلقوں کے تحفظات کے باوجود یہ فیصلہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر طیب اردوان کی ذاتی ترغیب پر کیا گیا۔

ٹرمپ، خلیج کی تیل سے مالا مال ریاستوں کے چار روزہ دورے پر ہیں، جس کے پہلے ہی دن سعودی عرب میں شاہانہ استقبال، دلکش تقاریب اور بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے دیکھنے کو ملے۔ سعودی عرب نے امریکی معیشت میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 142 ارب ڈالر کے امریکی اسلحے کی خریداری کا وعدہ کیا۔
یہ محض ایک دورہ نہیں، بلکہ سفارت کاری، سرمایہ کاری اور طاقت کے تین ستونوں پر استوار ایک نیا عالمی کھیل ہے۔
ٹرمپ اور احمد الشرع کی ملاقات کو محض رسمی ملاقات قرار دینا آسان نہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو امریکا اور شام کے درمیان تعلقات کی ممکنہ بحالی کا اشارہ دے سکتا ہے۔ احمد الشرع، جو دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے صدر بنے، 2016 میں القاعدہ سے ناطہ توڑ چکے ہیں — لیکن ان کا ماضی آج بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
مبصرین کے مطابق، یہ ملاقات عالمی سطح پر امریکا کے مستقبل کے عزائم اور مشرق وسطیٰ میں نئی سیاسی بساط کی تیاری کا عندیہ دے سکتی ہے۔ ٹرمپ، آج شام سعودی عرب کا دورہ مکمل کرنے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحا روانہ ہوں گے جہاں امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات متوقع ہے۔ قطر بھی امریکا میں سرمایہ کاری کے لیے بڑے اعلانات کی تیاری میں ہے