یواے ای کی سیٹلائٹ ساز کمپنی آربٹ ورکس نے حال ہی میں ایک نہایت اہم منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت 10 مصنوعی سیاروں پر مشتمل ایک جدید ترین نیٹ ورک "الطائر” کو خلا میں بھیجا جائے گا۔
ان سیٹلائٹس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت (AI) سے لیس ہوں گے اور زمینی مشاہدے کے کاموں میں انقلابی کردار ادا کریں گے۔
یہ تمام سیٹلائٹس ابوظہبی میں واقع آربٹ ورکس کی فیکٹری میں تیار کیے جائیں گے، خلا میں ان کی روانگی کا عمل 2026 میں متوقع ہے۔
کمپنی کے مطابق، ہر سیٹلائٹ میں جدید ترین ملٹی سینسر ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی، جس میں آپٹیکل، انفراریڈ، تھرمل، ہائپرسپیکٹرل اور ریڈیو فریکوئنسی سینسرز شامل ہوں گے۔
یہ سیارے روایتی سیٹلائٹس سے اس لحاظ سے مختلف ہوں گے کہ یہ خلا ہی میں ڈیٹا کی پروسیسنگ کرنے کے قابل ہوں گے، یعنی زمین پر منتقل کیے بغیر ہی وہ معلومات تجزیہ کر سکیں گے۔
اس "ایج کمپیوٹنگ” ٹیکنالوجی کی بدولت قدرتی آفات، سمندری نگرانی، زرعی منصوبہ بندی اور قومی سلامتی جیسے حساس شعبوں میں تیز اور بروقت فیصلے ممکن ہوں گے۔
الطائر نیٹ ورک کو لوفٹ آربیٹل کے "لانگ باؤ” پلیٹ فارم پر تیار کیا جائے گا، جو ایئربس کے مشہور زمانہ "ایرو بس” ڈیزائن سے اخذ کیا گیا ہے۔ ان سیٹلائٹس کی متوقع عملی عمر آٹھ سال رکھی گئی ہے۔
کمپنی کے نمائندے کے مطابق، الطائر منصوبہ متحدہ عرب امارات کے اُس وژن کی عملی مثال ہے جس کے تحت ملک خلائی ٹیکنالوجی خریدنے والے سے خلائی سازوسامان بنانے والے ملک میں تبدیل ہو رہا ہے۔
آربٹ ورکس کی ابوظہبی میں قائم فیکٹری سالانہ 50 سیٹلائٹس بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس سے متحدہ عرب امارات خطے میں ایک بڑے سیٹلائٹ مینوفیکچرنگ مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔
اس اہم پیش رفت کے پیچھے متحدہ عرب امارات کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ اپنے معیشتی ڈھانچے کو ہائی ٹیک شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے متنوع بنانے کے خواہاں ہیں۔
2014 میں یو اے ای اسپیس ایجنسی کے قیام سے لے کر اب تک حکومت خلا سے متعلق منصوبوں میں 5.5 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکی ہے، اور 57 سے زائد خلائی اداروں میں 1,500 سے زیادہ ملازمتیں تخلیق کی جا چکی ہیں۔
الطائر نیٹ ورک خلا میں ایسے جدید سیٹلائٹس کی کڑی ہوگی جو انتہائی حساس زمینی اور سیاسی حالات پر فوری ردِ عمل دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔
صارفین — خواہ وہ حکومتی ادارے ہوں یا نجی کمپنیاں — اس نیٹ ورک سے حاصل شدہ ڈیٹا کو فوری تجزیے کے ساتھ استعمال کر سکیں گے۔
آربٹ ورکس کے چیف انجینئر کے مطابق، ایج اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ پرانے سسٹمز کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی ڈیٹا ٹرانسمیشن میں تاخیر پر قابو پا لیں گے۔ ان کے بقول، "اب معلومات محض اکٹھی نہیں کی جائیں گی، بلکہ فوری طور پر قابلِ عمل فیصلوں کے لیے استعمال بھی کی جا سکیں گی۔”
مشرقِ وسطیٰ میں خلائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے رجحان میں حالیہ برسوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اور 2018 سے 2023 کے درمیان یہ شرح 175 فیصد بڑھی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے مریخ مشن، خلا نورد پروگرام اور اب AI پر مبنی سیٹلائٹس کے ذریعے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس خطے میں خلا کی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی ٹیکنالوجی، خاص طور پر AI کے امتزاج کے ساتھ، زمین کے مشاہدے کی عالمی مارکیٹ کو اربوں ڈالر کی انڈسٹری میں تبدیل کر دے گی۔
اندازہ ہے کہ 2025 میں سیٹلائٹ مینوفیکچرنگ اور لانچنگ کی مارکیٹ 278 ارب ڈالر ہو گی، جو 2030 تک 430 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
یوں متحدہ عرب امارات کا "الطائر” منصوبہ نہ صرف ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی سمت ایک بڑا قدم ہے، بلکہ یہ ملک کو خلائی صنعت میں عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی کے طور پر بھی متعارف کروائے گا۔