واشنگٹن :بین الاقوامی سیاست میں ایک غیر متوقع موڑ آ گیا ہے، جب امریکی وزارتِ خزانہ نے اچانک شامی صدر احمد الشرع، وزیر داخلہ انس الخطاب، اور درجنوں سرکاری و مالیاتی اداروں پر عائد طویل المدتی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ فیصلہ بظاہر ایک عام اعلامیہ محسوس ہوا، لیکن درحقیقت یہ عالمی سفارت کاری میں ایک زلزلہ انگیز قدم سمجھا جا رہا ہے،خاص طور پر جب یہ انکشاف بھی ہوا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی خصوصی درخواست پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ قدم اٹھایا ہے۔
صرف اعلیٰ شخصیات ہی نہیں، بلکہ شام کا مرکزی بینک، دیگر اہم بینک، سرکاری تیل و گیس کمپنیاں، وزارتیں، شامی ایئر لائن، سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس، اور بندرگاہیں اللاذقیہ و طرطوس بھی اس نئی پالیسی کا حصہ ہیں۔
گویا، ایک نئی اقتصادی بحالی کا دروازہ کھول دیا گیا ہے صرف شام کے لیے نہیں بلکہ ان تمام سرمایہ کاروں کے لیے بھی جو خطے میں قدم جمانے کے خواہاں ہیں۔
وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق، "آج کے اقدامات شام کو ایک پرامن، مستحکم اور خوش حال ملک بنانے کی عالمی کوششوں کا حصہ ہیں۔”
ساتھ ہی، وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا کہ شام کو سیزر سیریا پروٹیکشن ایکٹ سے 180 دن کا استثنا دے دیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد، بجلی، صحت اور پانی جیسے اہم شعبوں میں ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
ادھر یورپی یونین بھی پیچھے نہیں رہی۔ یورپی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے 20 مئی کو اعلان کیا کہ وزرائے خارجہ نے شام پر عائد پرانے اقتصادی پابندیاں اٹھانے پر اتفاق کر لیا ہے۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شام کی نئی حکومت چودہ سالہ خانہ جنگی کے بعد معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کی کوشش میں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، ملک کی تعمیرِ نو کے لیے 400 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف معاشی بحالی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے نئے توازن کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور شام کے درمیان اس سطح کی مفاہمت مستقبل کی عالمی سیاست کا رخ بدل سکتی ہے۔