متحدہ عرب امارات میں رواں ہفتے غیرمعمولی گرمی نے موسمیاتی ماہرین اور عوام دونوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ نیشنل سینٹر فار میٹرولوجی (این سی ایم) کے مطابق سنیچر کے روز العین کے علاقے سویحان میں دوپہر کے وقت درجہ حرارت 51.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، جو کہ اس ہفتے کے آغاز میں ابوظہبی میں ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت سے بھی زائد ہے۔
یہ مسلسل دوسرا دن تھا جب درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا، جو کہ مئی کے مہینے کے لیے ایک نایاب اور تشویشناک رجحان ہے۔
محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ درجہ حرارت سنہ 2009 میں ریکارڈ کیے گئے 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ کے ریکارڈ سے بھی زیادہ ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کا براہ راست نتیجہ ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ایسے موسمی حالات اس بات کی علامت ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، یا گلوبل وارمنگ، مشرق وسطیٰ جیسے خطوں کو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ متاثر کر رہا ہے۔
گرین پیس کے 2022 میں جاری کردہ ایک تحقیقی تجزیے میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستیں، مستقبل میں پانی اور خوراک کی قلت کے ساتھ ساتھ شدید گرمی کی لہروں کی لپیٹ میں آئیں گی۔
متحدہ عرب امارات میں موسم گرما ابھی شروع ہوا ہی ہے، اور ابھی سے درجہ حرارت خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے، جو مستقبل کے ممکنہ خطرات کی پیشگی جھلک دکھا رہا ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں اور مکینوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے۔ ان ہدایات میں دوپہر کے اوقات میں دھوپ سے بچنا، پانی کی وافر مقدار کا استعمال، ہلکے اور ڈھیلے کپڑوں کا پہننا، اور سن سکرین کا استعمال شامل ہے۔
خاص طور پر بچوں، بزرگوں، اور مزدور طبقے کو ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے، تاکہ ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی اور دیگر موسمی اثرات سے بچا جا سکے۔
اگرچہ متحدہ عرب امارات دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن ملک نے حالیہ برسوں میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ اقدام اس بات کا عکاس ہے کہ متحدہ عرب امارات اپنی توانائی کی ضروریات کو ماحول دوست طریقوں سے پورا کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے، تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کر سکے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ خلیجی ریاستوں میں عمومی طور پر گرمیوں میں شدید درجہ حرارت معمول کی بات ہے، لیکن موجودہ موسمی شدت اپنی نوعیت میں غیرمعمولی ہے، جو خطے کے لیے ایک وارننگ کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو نہ پایا گیا، تو آنے والے برسوں میں ان علاقوں میں انسانی زندگی اور معیشت دونوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہو گا۔