ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے ایک نہایت سنگین موڑ اختیار کر لیا ہے اسرائیل نے آج صبح ایرانی دارالحکومت تہران پر فضائی حملہ کر دیا۔
اس حملے کے نتیجے میں دارالحکومت کے متعدد علاقے زور دار دھماکوں سے لرز اُٹھے، اور فضا میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اسرائیلی حکام نے اس کارروائی کو ایران کے جوہری اور فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کی ایک "دفاعی اور پیشگی” کوشش قرار دیا ہے، تاہم ایران نے اسے ایک کھلی جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران کا جوہری پروگرام تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے اور اس پر مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے بورڈ آف گورنرز نے جمعرات کو ایران کے خلاف ایک سخت قرارداد منظور کی، جس میں تہران پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایجنسی کے معائنہ کاروں سے مطلوبہ تعاون نہیں کر رہا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بیس سال کے وقفے کے بعد ایران پر اس سطح کی بین الاقوامی سرزنش کی گئی ہو۔
ردعمل میں، ایران نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی ایک نیا افزودگی مرکز قائم کرے گا اور موجودہ سینٹری فیوجز کو جدید ترین ماڈلز سے تبدیل کرے گا تاکہ افزودگی کی رفتار اور صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ اسرائیلی افواج نے ایران کے جوہری پروگرام کے سب سے حساس اور کلیدی حصوں کو نشانہ بنایا ہے، جن میں نطنز کی یورینیئم افزودگی کی تنصیبات اور بیلسٹک میزائل پروگرام شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے ہر صورت میں روکے گا، چاہے اس کے لیے کتنا ہی وقت اور کتنی ہی کارروائیاں کیوں نہ کرنی پڑیں۔
ان کے بقول، اسرائیلی خفیہ اداروں نے ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے خلاف بھی اہداف حاصل کیے ہیں، جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں سرگرم تھے۔
ایرانی ریاستی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس فضائی حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی ہلاک ہو گئے ہیں، جو حملے کے وقت تہران میں پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹر میں موجود تھے۔ اسی حملے میں ایران کے دو معروف ایٹمی سائنسدان فریدون عباسی دیوانی اور محمد مہدی تہرانی بھی جاں بحق ہوئے۔
سرکاری ٹیلی ویژن کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ایک رہائشی علاقے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں متعدد عام شہری، جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں، جان کی بازی ہار گئے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کی اس کارروائی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "صیہونی ریاست نے ایک ایسا جرم کیا ہے جو معاف نہیں کیا جا سکتا، اور اب اس کو ایک نہایت سخت، تلخ اور ناقابلِ فراموش انجام کا سامنا کرنا ہو گا۔”
انہوں نے اپنے بیان میں یہ واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خامنہ ای نے دنیا کو متنبہ کیا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے اسرائیل کو لگام نہ دی، تو خطے میں ایک وسیع تر جنگ کا خطرہ منڈلانے لگے گا۔
ادھر اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے باضابطہ طور پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی جانب سے ممکنہ ردعمل، بشمول میزائل حملوں اور ڈرونز کی یلغار، کے پیش نظر تمام حفاظتی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس حملے کو اپنے دفاع کا حق قرار دیتا ہے اور اس کے لیے اس نے ایک خصوصی سیکیورٹی آرڈر پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور خطے میں فضائی سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں۔
دریں اثنا، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک سرکاری بیان میں واضح کیا کہ امریکہ اس حملے میں کسی بھی صورت میں شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے یہ قدم اپنی سلامتی کے تناظر میں اٹھایا اور امریکہ کو صرف اعتماد میں لیا گیا تھا، لیکن امریکہ نے اس کارروائی میں کسی بھی قسم کی معاونت یا شرکت نہیں کی۔
ان کے مطابق واشنگٹن کی اولین ترجیح اس وقت خطے میں تعینات امریکی افواج کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، اور ایران کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ بنانے سے باز رہے۔
اس دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کانگریس ارکان سے ملاقاتوں کے دوران کہا کہ انہیں امید ہے کہ ایران سے متعلق کوئی پُرامن حل نکل سکتا ہے، اور وہ نیتن یاہو کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فوری فوجی کارروائی سے گریز کیا جائے تاکہ سفارتی کوششوں کی راہ ہموار کی جا سکے۔
جب تہران میں دھماکے ہوئے، اُس وقت صدر ٹرمپ لان میں مہمانوں سے مصافحہ اور تصویریں بنوا رہے تھے، اور بظاہر وہ فوری طور پر اس صورت حال سے آگاہ نہیں تھے۔
اس تمام تر پیش رفت نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔ عالمی برادری میں ایک شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ یہ واقعہ ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو نہ صرف ایران اور اسرائیل بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین، چین، روس اور دیگر طاقتیں اس وقت اس بحران پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور سفارتی محاذ پر متحرک ہونے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ حالات مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔
عالمی سطح پر یہ صورتحال ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں کسی ایک غلط فیصلے یا اشتعال انگیزی سے خطہ مکمل طور پر جنگ میں جھونکا جا سکتا ہے۔
اس وقت عالمی قیادت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھرپور سفارتی اقدامات کرے تاکہ لاکھوں بے گناہ افراد کی جانیں خطرے سے محفوظ رہیں اور دنیا ایک اور تباہ کن جنگ سے بچ جائے۔