ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ عالمی ادارے اور علاقائی قوتیں صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ ایران کی قیادت نے اس حملے کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیتے ہوئے سخت نتائج کی دھمکی دی ہے۔
آج صبح اسرائیل نے تہران پر فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک متعدد حساس مقامات، بشمول یورینیم افزودگی کی تنصیبات، کو نشانہ بنایا گیا۔ تہران کی فضا دھماکوں سے لرز اٹھی اور عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس کارروائی کو "اسرائیل کی بقا کی جنگ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ایران کی جوہری صلاحیت کا مکمل خاتمہ نہ کر لیا جائے، آپریشن جاری رہے گا۔
نیتن یاہو نے اپنے ریکارڈ شدہ بیان میں اعلان کیا کہ اسرائیل نے نطنز میں موجود یورینیم افزودگی کے بنیادی مرکز کو ہدف بنایا اور ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام کی اہم تنصیبات کو بھی تباہ کیا۔ ان کے بقول یہ حملے ان ایرانی سائنسدانوں پر بھی کیے گئے ہیں جو مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں سرگرم تھے۔
ادھر، اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے "آئی اے ای اے” نے بھی اس پیش رفت پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ ادارے نے اپنے بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے کے دوران نطنز میں واقع حساس جوہری تنصیب کو براہ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔
آئی اے ای اے کے مطابق وہ اس وقت ایران میں اپنی ٹیموں سے رابطے میں ہے اور تابکاری کی سطح کے جائزے کے لیے سرگرم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت نطنز سائٹ کی سلامتی اور تابکاری کے پھیلاؤ پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔
دوسری جانب ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے ان حملوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس جرم کی قیمت چکائے گا۔
اپنے بیان میں خامنہ ای نے کہا کہ صیہونی حکومت نے اسلامی جمہوریہ پر کھلی جارحیت کر کے اپنے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ اور خونی انجام کو دعوت دی ہے، جو اسے ضرور ملے گا۔ ان کے بقول، ایران اپنی سلامتی، خودمختاری اور قومی وقار پر کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب تہران کے جوہری منصوبے پر مغرب کی تشویش اور ایران کے بڑھتے ہوئے افزودگی کے اقدامات پر پہلے ہی تناؤ عروج پر تھا۔
یورینیئم افزودگی کے پروگرام کے سبب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اور اسرائیل متعدد بار عندیہ دے چکا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دے گا۔
عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ جوہری اداروں کی تشویش اور ایران و اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں خطے میں مزید عدم استحکام اور جھڑپوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ حالات مزید بگڑنے سے قبل کوئی سفارتی راہ نکالی جائے تاکہ ایک بڑے تباہ کن تنازع سے بچا جا سکے۔