بیروت/تہران/یروشلم:مشرقِ وسطیٰ میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی کشیدگی نے خطے کے امن پر سیاہ بادل منڈلا دیے ہیں۔ جمعے کی علی الصبح اسرائیلی فضائیہ کے ایران پر مہلک حملوں کے بعد علاقائی ردعمل تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔ حملے میں ایرانی شہری، خواتین و بچے اور اعلیٰ عسکری قیادت نشانہ بنی، جن میں پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور ایرانی چیف آف اسٹاف محمد باقری بھی شامل ہیں۔
حملے کے ردعمل میں لبنانی تنظیم حزب اللہ نے ایک غیر معمولی سنجیدہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ تنہا کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گی۔ ایک سینئر عہدے دار نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم پہل نہیں کریں گے، لیکن ہم خاموش تماشائی بھی نہیں بنیں گے۔
اپنے بیان میں حزب اللہ نے اسرائیلی حملوں کو پورے خطے کے امن کے لیے "آگ کا کھیل” قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدامات ایک پاگل دشمن کی عکاسی کرتے ہیں، جو نہ قانون مانتا ہے، نہ منطق۔ بیان میں خبردار کیا گیا کہ اسرائیل نے "تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں” اور یہ عمل "خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے” کی کھلی کوشش ہے۔
ادھر لبنانی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی غیر ریاستی عنصر کو لبنان کو جنگ میں گھسیٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ العربیہ اور الحدث کے مطابق، ریاست نے حزب اللہ کو خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی فریق اگر لبنان کو ناپسندیدہ جنگ میں ملوث کرے گا تو وہ خود ذمہ دار ہو گا۔
لبنانی صدر جوزف عون نے اسرائیلی حملے کو نہ صرف ایرانی خودمختاری بلکہ بین الاقوامی مصالحتی کوششوں پرحملہ قراردیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے اس پوری عالمی کاوش کو نشانہ بناتے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے جاری ہے۔
صدر نے ایرانی عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی اور زخمیوں کے لیے دعا کی۔
لبنانی وزیراعظم نواف سلام نے بھی اسرائیل کی کارروائی کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے نہ صرف خطے کے بلکہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
یہ فضائی حملے ایسے وقت میں ہوئے جب ایران اور مغرب کے درمیان بعض خفیہ مصالحتی کوششیں جاری تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملے ان کوششوں کو دفن کر دیں گے؟ اور کیا حزب اللہ کا محتاط رویہ خطے کو بڑے تصادم سے بچا سکے گا؟
دنیا کی نظریں مشرقِ وسطیٰ پر جمی ہیں، جہاں ہر لمحہ ایک نئی کہانی جنم لے رہی ہےاور ہر بیان، ہر حملہ اور ہر ردعمل جنگ و امن کے درمیان ایک باریک لکیر کھینچ رہا ہے۔