ایران کے دارالحکومت تہران میں جب بی بی سی کے نمائندوں نے عام شہریوں سے اسرائیلی حملوں کے بارے میں ان کے جذبات جاننے کی کوشش کی تو کئی آوازیں ایسی تھیں جو خوف، پریشانی اور ذہنی تھکن سے بوجھل نظر آئیں۔ ان میں ایک خاتون ایسی بھی تھیں جن کی گفتگو میں نہ صرف مایوسی بلکہ بے بسی اور گہرا درد بھی جھلک رہا تھا۔
اس خاتون نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حالات نے انہیں اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ وہ کچھ وقت کے لیے تہران کو چھوڑنے کا سنجیدگی سے سوچ چکی تھیں۔
ان کا کہنا تھا:”ہماری اولین خواہش یہی تھی کہ کسی چھوٹے شہر یا دیہی علاقے میں چلے جائیں، کسی ایسی جگہ جہاں بمباری کا خطرہ نہ ہو، لیکن ایسا کرنا بھی آسان نہیں، کیونکہ ہمارے پیارے، ہمارے عزیز رشتہ دار ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے۔ اُنہیں چھوڑنا ممکن نہیں، اور ان کی فکر ہمارے فیصلوں پر غالب ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ آجکل ہو رہا ہے، وہ عام ایرانی شہریوں کے بس سے باہر ہے۔ "یہ حالات کسی بھی انسان کے لیے قابل برداشت نہیں، اور ہم مسلسل ایک ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں۔
” ان کے مطابق، ایران کی موجودہ حالت ایسی ہے جیسے پورا ملک مفلوج ہو چکا ہو، اور وہ خود کو ایک مسلسل گھٹن اور بے سکونی کے حصار میں محسوس کرتی ہیں۔
انہوں نے انتہائی افسوس کے ساتھ کہا کہ "حکمران طبقے کو عوام کی زندگیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ ہر گزرتا دن ان کے لیے مزید بے یقینی، خوف اور دباؤ لے کر آتا ہے۔
"ہم ہر لمحے اضطراب، خوف اور ذہنی تھکن میں ڈوبے رہتے ہیں۔ یہ سب ایک ایسی اذیت میں بدل چکا ہے جو بیان سے باہر ہے۔”
ایک اور خاتون نے بتایا کہ گزشتہ دو روز سے وہ سو بھی نہیں سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی ذہنی حالت بری طرح متاثر ہو چکی ہے اور ہر وقت ایک انجانے خطرے کا احساس ان کا پیچھا کر رہا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی نے اُن پر بچپن کے وہ خوفناک مناظر تازہ کر دیے ہیں جب ایران عراق جنگ کے دوران وہ پناہ گاہوں میں چھپ کر بمباری سے بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ماضی کی اس بھیانک یاد کو پھر سے زندہ کر رہا ہے۔ "وہی سائرن، وہی اندیشے، اور وہی پناہ لینے کی بےبسی… اب پھر ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔”