یروشلم / تل ابیب :برسوں سے دشمنوں کے راکٹوں کو آسمان میں ہی تباہ کر دینے والا، اسرائیل کا فخر "آئرن ڈوم” دفاعی نظام اب خود ایک بڑے سوالیہ نشان کی زد میں آ چکا ہے۔ ایران، حماس اور حزب اللہ کی طرف سے بیک وقت سینکڑوں راکٹوں کی یلغار نے اس جدید ترین دفاعی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالیہ حملوں میں نہ صرف آئرن ڈوم متعدد میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا، بلکہ کئی مہلک راکٹ اسرائیل کے حساس علاقوں پر گر کر جانی و مالی نقصان کا باعث بھی بنے۔
آئرن ڈوم (Iron Dome) اسرائیل کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا دفاعی نظام ہے جو مختصر فاصلے پر آنے والے راکٹوں اور میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔ یہ نظام خاص طور پر غزہ اور لبنان جیسے علاقوں سے داغے جانے والے غیر روایتی راکٹ حملوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
ایک بیٹری میں 3 سے 4 لانچر اور 20 انٹرسیپٹر میزائل ہوتے ہیں،ہر بیٹری کی زیادہ سے زیادہ رینج 70 کلومیٹر ہے
پورے اسرائیل میں صرف 10 آئرن ڈوم بیٹریاں موجود ہیں۔ہر انٹرسیپٹر میزائل کی لاگت تقریباً 50 ہزار امریکی ڈالر ہے
دشمن کا راکٹ اکثر محض چند سو ڈالر میں تیار ہو جاتا ہے،آئرن ڈوم کی اصل کمزوری اس وقت سامنے آتی ہے جب دشمن بیک وقت درجنوں یا سینکڑوں راکٹ فائر کرتا ہے۔ چونکہ ایک بیٹری صرف محدود راکٹوں کو روک سکتی ہے، اس لیے اگر 40 یا اس سے زائد راکٹ ایک ساتھ داغے جائیں، تو آئرن ڈوم زیادہ سےزیادہ 3یا 4 کوہی مار گرائےگا۔ باقی میزائل اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے اور یہی حالیہ حملوں میں ہوا۔
ایران کی جانب سے بیک وقت داغے گئے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی بوچھاڑ کے دوران آئرن ڈوم کئی حملے روکنے میں ناکام رہا۔ تل ابیب، حیفہ اور دیگر شہروں میں راکٹ گرے، عمارتیں منہدم ہوئیں، لوگ ہلاک و زخمی ہوئے اور عوامی پناہ گاہوں میں افراتفری مچ گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق کچھ علاقوں میں سائرن بجنے سے پہلے ہی دھماکوں کی آوازیں آ گئیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آئرن ڈوم مکمل طور پر وقت پر ردعمل نہیں دے سکا۔
اسرائیلی دفاعی تجزیہ کاروں اور میڈیا میں کھلے عام آئرن ڈوم پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے مطابق ہم نے جو نظام اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار کیا، وہ ایک ہی وقت میں حملوں کی بھرمار میں ہمارا تحفظ کرنے میں ناکام رہا۔ دشمن ہماری کمزوری جان چکے ہیں۔
ایک طرف دشمن کے سستے راکٹ، دوسری طرف آئرن ڈوم کے مہنگے انٹرسیپٹر میزائل۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اسرائیل کو نہ صرف جانی نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ معاشی طور پر بھی تباہ کن نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اسرائیلی حکومت اب لیزر ٹیکنالوجی پر مبنی نئے دفاعی نظام "آئرن بیم” (Iron Beam) کی طرف دیکھ رہی ہے، جو روشنی کی رفتار سے حملہ آور میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کم لاگت بھی ہے۔ لیکن یہ منصوبہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہے اور کسی بڑے حملے میں فوری طور پر مدد نہیں کر سکتا۔
موجودہ حالات میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو کیسے دور کرے۔ دشمن اب آئرن ڈوم کو دباؤ کے تحت ناکام بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، اور اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لیے نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔