تہران/تل ابیب:مشرق وسطیٰ میں خطرے کی گھنٹیاں ایک بار پھر گونجنے لگیں! ایرانی پاسداران انقلاب نے منگل کو دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تل ابیب میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی "موساد” کے ایک خفیہ مرکز کو میزائل حملے میں نشانہ بنایا ہے۔ یہ دعویٰ ایران کے سرکاری ٹی وی نے کیا ہے، جس نے خطے میں پہلے سے موجود تناؤ کو مزید ہوا دے دی ہے۔
ایرانی میزائل اور ڈرونز کی بارش سے اسرائیلی شہر لرز اٹھے۔ تل ابیب، یروشلم اور حیفا میں دھماکوں کی گونج سنی گئی۔ پاسداران انقلاب نے ایک اور طاقتور حملے کی لہر کی تصدیق کی، جبکہ اعلیٰ ایرانی کمانڈر نے خبردار کیا کہ "اگلے چند گھنٹے اور بھی ہولناک ہوں گے۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق، تل ابیب کے مختلف علاقوں میں گرنے والے میزائلوں اور ان کے ملبے سے مالی نقصان ہوا، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ فائر بریگیڈ نے دان اور گوش دان میں میزائل گرنے اور آگ لگنے کی متعدد اطلاعات موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب العربیہ اور الحدث کے مطابق، ایران کی طرف سے داغے گئے 18 میزائلوں میں سے 14 کو اسرائیلی دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کر دیا، جبکہ باقی میزائلوں نے شمالی اور وسطی اسرائیل میں اہداف کو نشانہ بنایا، جن سے مجموعی طور پر 10 افراد زخمی ہوئے۔
اسرائیل نے بھی فوری جوابی کارروائی کی اور ایرانی سرزمین پر واقع متعدد میزائل ڈپو، لانچنگ سائٹس اور ڈرون مراکز کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فضائیہ کے مطابق، رات بھر جاری رہنے والے حملوں کا مقصد ایران کی عسکری صلاحیت کو کمزور کرنا تھا۔ دریں اثنا، ایران کے سرکاری ٹی وی ہیڈکوارٹر پر اسرائیلی حملے میں تین افراد جان سے گئے۔
جمعہ سے جاری اس کشیدہ صورتحال میں ایرانی حکام کے مطابق اب تک 220 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے 24 شہریوں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کے حملے اسرائیلی جارحیت کا ردعمل ہیں، جبکہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ ایران کے جوہری اور بیلسٹک پروگرام کو روکنے کے لیے کارروائی کر رہا ہے۔ ایران واضح کر چکا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا حق رکھتا ہے۔
امریکہ نے ایران کو سخت وارننگ دی ہے کہ وہ امریکی مفادات یا شہریوں کو نشانہ بنانے سے باز رہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی گئی کہ اسرائیل کے حالیہ حملوں میں امریکہ شریک نہیں تھا۔
ایران اور اسرائیل کی براہِ راست جھڑپوں نے خطے کو خطرناک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد پہلے ہی صورتحال نازک تھی، مگر اب باقاعدہ جنگ کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔