ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، اور دونوں ممالک کی جانب سے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔ دوسری جانب ایران نے زور دیا ہے کہ اس کے پاس طویل المدت لڑائی کے لیے وافر جنگی سازوسامان اور افرادی قوت موجود ہے۔
تازہ جھڑپوں میں اسرائیل نے جنوبی ایران کے شہر اصفہان پر شدید فضائی حملے کیے جہاں دس سے زائد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اس کے علاوہ قم شہر میں بھی ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ ایرانی حکام نے قم میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں 22 افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ اس نے ایران کے وسطی علاقوں میں میزائلوں کے ذخیرے اور لانچنگ سائٹس پر ایک بڑا فضائی آپریشن کیا ہے۔ اس کارروائی کے دوران تقریباً 30 اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا، جن میں چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، آئی آر جی سی کے سابق سربراہ حسین سلامی، خاتم الانبیاء ملٹری ہیڈکوارٹر کے کمانڈر غلام علی راشد، اور دیگر کئی اہم کمانڈرز شامل ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں ان افراد کو ان کے اہل خانہ سمیت ہلاک کر دیا گیا۔ مزید برآں، اسرائیل نے تہران میں فضائی حملوں کے ذریعے ایران کے 14 جوہری سائنسدانوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے ایران کی جوہری صلاحیت کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کے ردعمل میں ایران نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کی ہے۔ ایران کی جانب سے سینکڑوں ڈرونز اور بیلسٹک میزائل اسرائیل کی جانب داغے گئے، جس کے بعد اسرائیل کے کئی بڑے شہر ہائی الرٹ پر آ گئے ہیں اور شہریوں کو حفاظتی پناہ گاہوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
خطے میں بڑھتے ہوئے اس تنازع پر عالمی برادری گہری تشویش کا اظہار کر رہی ہے اور اقوام متحدہ، روس، چین اور یورپی یونین نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ تاہم زمینی حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق اس وقت پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں اور مشرق وسطیٰ ایک ممکنہ بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔