مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ مزید بھڑک اٹھی،ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اسرائیل پر شدید میزائل حملہ کر دیا۔ مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں، جب کہ اسرائیلی ریسکیو سروسز کے مطابق کم از کم 23 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیا ہے کہ یہ حملے امریکا کے ساتھ مل کر کی گئی جارحیت کے جواب میں کیے گئے ہیں، جن کا ہدف بن گوریون ایئرپورٹ، اسرائیلی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز اور دیگر حساس تنصیبات تھے۔
ایرانی خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق، حملوں میں مائع اور ٹھوس ایندھن سے چلنے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کیے گئے۔ دوسری جانب، تہران ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بڑی تباہی مچائی ہے۔
رائٹرز اور اے ایف پی کے مطابق تل ابیب، حیفہ اور بیت المقدس سمیت تین اہم اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل بھر میں سائرن بج اٹھے اور شہریوں کو فوری طور پر پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی ہدایات دی گئیں۔
اسرائیل کی ریسکیو سروس میگن ڈیوڈ ایڈم کے مطابق، 23 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا جن میں ایک شخص کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی پولیس نے حیفہ کے علاقے میں میزائل کے ٹکڑے گرنے کی بھی تصدیق کی ہے۔
ایران کے میزائل حملوں کے بعد اسرائیل میں فوجی سنسر شپ سخت کر دی گئی ہے، تاہم اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13 جون کو ایران اسرائیل تنازع شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 50 میزائل اسرائیل کی سرزمین پر گر چکے ہیں اور 25 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
ادھر اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایران سے لانچ کیے گئے دو ڈرونز کو اردن کی سرحد کے قریب مار گرایا ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق یہ ڈرونز اسرائیل کی مشرقی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
اسرائیل کی ایئرپورٹس اتھارٹی نے صورت حال کی سنگینی کے پیشِ نظر فضائی حدود کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے۔ اتھارٹی نے کہا ہے کہ ملک میں تمام ہوائی پروازوں کو معطل کر دیا گیا ہے، تاہم مصر اور اردن کے ساتھ زمینی سرحدیں فی الحال کھلی رہیں گی۔
ادھر الجزیرہ کے مطابق اردن کے تمام صوبوں میں ممکنہ فضائی خطرات کے پیش نظر ایمرجنسی سائرن بجا دیے گئے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ خطہ ایک وسیع جنگی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایرانی جوابی کارروائی صرف آغاز ہے، اور آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ ایک بڑے جنگی محاذ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عالمی قوتیں، خاص طور پر چین، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ، اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، لیکن فی الحال میدان میں صرف بارود اور آہنی پیغام ہی سنائی دے رہا ہے۔