ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ایک انتہائی سنگین اور ناقابلِ قبول قدم ہے، جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کے امن و استحکام کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل نے ایک ایسی حد پار کی ہے جسے ایران اپنی خودمختاری، سلامتی اور وقار کے خلاف کھلی جارحیت سمجھتا ہے۔
انہوں نے یہ بات استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، جہاں انہوں نے موجودہ کشیدگی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب سفارتی بیانات سے آگے نکل چکے ہیں، کیونکہ گذشتہ شب جو کچھ ہوا، وہ ایران پر ایک براہِ راست اور سنگین حملہ تھا۔ عراقچی کے مطابق اس حملے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے میں وقت لگے گا، لیکن اصل مسئلہ نقصان نہیں بلکہ عالمی قوانین اور سفارتی اصولوں کی پامالی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس موقع پر بتایا کہ وہ پیر کے روز روس روانہ ہو رہے ہیں جہاں ان کی روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ایک اہم ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات کا مقصد موجودہ صورتحال پر مشاورت اور آئندہ کے لائحہ عمل پر ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اپنے دفاع کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے اور امریکی جارحیت کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک غیرقانونی جنگ چھیڑ دی ہے جو کہ سفارت کاری کی روح کے منافی ہے۔ "جب ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، تو اس وقت ہم پر حملہ کیا گیا۔”
عباس عراقچی نے کہا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نہ تو مکالمے کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ ہی امن کی راہ پر یقین رکھتے ہیں؛ وہ صرف دباؤ، دھمکی اور طاقت کا استعمال جانتے ہیں۔
دوسری جانب ترکیہ، جو اس وقت او آئی سی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، نے بھی صورتِ حال کی نزاکت پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ پیش رفت کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی ایک مکمل عالمی بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس کے اثرات صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
ترکیہ نے زور دیا کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو دنیا کو ایک وسیع تباہی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔