دنیا ایک بڑے ممکنہ تباہ کن تنازع سے اس وقت بچ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ لیکن یہ محض ایک سادہ اعلان نہ تھا، بلکہ اس کے پیچھے کئی دنوں کی خفیہ سفارتکاری، فوجی دباؤ اور حیران کن فیصلے پوشیدہ تھے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی اس جنگ بندی کا علم اس وقت ہوا جب ٹرمپ نے اچانک سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر پوسٹ کر کے اس کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ایرانی حکام سے قطری ثالثی کے ذریعے پسِ پردہ مذاکرات مکمل کر لیے تھے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے ان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جنگ بندی کے اس اعلان سے قبل دنیا پہلے ہی لرز چکی تھی۔ ہفتے کے روز امریکا نے ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر B-2 بمبار طیاروں سے تباہ کن حملے کیے۔ صدر ٹرمپ نے ان حملوں کو "فیصلہ کن پیغام” قرار دیتے ہوئے پائلٹوں کو "ہیروز” کا درجہ دیا۔
جواب میں ایران نے امریکی اڈوں پر 14 میزائل داغےجن میں قطر کا "العديد”، اور عراق کے "عین الاسد” و "تاجی” شامل تھے—تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایرانی ردعمل کے فوری بعد، صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کی دستاویزات منظرِ عام پر لاتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران کارروائیاں فوری روکے گا جبکہ اسرائیل 12 گھنٹے بعد فائر بند کر دے گا۔
اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی حامی اس شرط پر دی گئی کہ آئندہ کسی بھی ایرانی حملے کا خطرہ نہ ہو۔ دوسری جانب، ایران کی جانب سے اپنی شرائط ابھی تک پوری طرح منظرعام پر نہیں آئیں، خاص طور پر جوہری افزودگی کے ذخائر کی شفافیت کے حوالے سے۔
واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے تہران سمیت ایران کے اہم علاقوں پر حملے کیے تھے جن میں درجنوں فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنس دان مارے گئے۔ ایران نے اس کے جواب میں تل ابیب، حیفا اور بئر السبع جیسے اہم اسرائیلی شہروں پر راکٹ اور ڈرون حملے کیے۔
آج جب جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، تو اس سوال کا جواب باقی ہے: کیا یہ سکون طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے، یا واقعی امن کی جانب ایک فیصلہ کن قدم؟