وائٹ ہائوس ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ ایران کو ایک نئے سویلین جوہری معاہدے پر آمادہ کرنے کے لیے 30 ارب ڈالر تک رسائی، پابندیوں میں نرمی اور منجمد ایرانی اثاثوں کی بحالی جیسی کئی بڑی رعایتوں پر غور کر رہی ہے۔ یہ کوشش ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کی جا رہی ہے، جس میں امریکا، مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک اور ایرانی نمائندوں کے درمیان پس پردہ بات چیت جاری ہےحتیٰ کہ ایران اور اسرائیل پر حالیہ فوجی حملوں کے دوران بھی۔
ذرائع کے مطابق، واشنگٹن میں امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف اور مشرق وسطیٰ کے شراکت داروں کے درمیان ایک خفیہ طویل ملاقات میں متعدد تجاویز زیر بحث آئیں، جن میں ایک نمایاں شرط ایران کی یورینیم افزودگی کی مکمل بندش تھی۔ اس کے بدلے ایران کو 6 ارب ڈالر کے منجمد اثاثے جاری کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جبکہ فردو نیوکلیئر پلانٹ کی ممکنہ تبدیلی کے لیے امریکی اتحادی مالی معاونت کریں گے۔
تاہم، یہ واضح نہیں کہ ایران مستقبل میں اس پلانٹ کو استعمال کر سکے گا یا نہیں، اور یہ بھی غیر واضح ہے کہ وائٹ ہاؤس ان تجاویز کو کتنی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق مختلف آپشنز زیر غور ہیں اور بات چیت میں شریک افراد "تخلیقی حل” تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایک نیا جوہری توازن ممکن بنایا جا سکے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے عندیہ دیا کہ امریکا ایران کے ساتھ ان مذاکرات کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن فنڈنگ کے تمام بوجھ کا ذمے دار نہیں ہوگا۔ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ علاقائی اور عالمی اتحادی بھی اس منصوبے میں کردار ادا کریں۔